• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

امیزون اور فلپ کارٹ کو سپریم کورٹ سے بھی جھٹکا

Updated: August 10, 2021, 12:11 PM IST | Agency | New Delhi

دہلی ٹریڈ ایسوسی ایشن کے ذریعے ان دونوں ای کامرس کمپنیوں پر بازار میں مسابقتی ماحول کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام پر کمپٹیشن کمیشن آف انڈیا (سی سی آئی) کی تحقیقات کو رکوانے کیلئے عدالت عالیہ سے بھی مایوسی کا سامنا ،۴؍ ہفتوں میں تفتیش کیلئے تعاون کرنے کا حکم

Flipkart and Amazon Competition Commission of India`s investigation..Picture:INN
فلپ کارٹ اور امیزون کمپٹیشن کمیشن آف انڈیا کی تفتیش سے دامن بچانے کی کوشش میں ہے۔۔تصویر :آئی این این

 سپریم کورٹ نے ای کامرس شعبے کی معروف کمپنیوں امیزون اور فلپ کارٹ کو بڑا دھچکہ دیتے ہوئے  ان کے خلاف کمپٹیشن کمیشن آف انڈیا (سی سی آئی) کی جانچ  میں مداخلت سے انکار کردیا۔   پیر کوچیف جسٹس این وی رمن ، جسٹس ونیت سرن اور جسٹس سوریہ کانت کی ڈویژن بنچ نے اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم عدالت دونوں کمپنیوں کو جانچ میں  تعاون  کیلئے ۴؍ ہفتے کا وقت دیا ہے۔جسٹس رمن نے سماعت کے دوران کہا  کہ ہمیں ہائی کورٹ کے حکم میں مداخلت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ جانچ میں شامل ہونے کا) وقت آج (۹؍اگست) ختم ہو رہا ہے ، اس لئے ہم اس مہلت میں مزید۴؍ ہفتوں کی توسیع کررہے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ا میزون اور فلپ کارٹ جیسی بڑی کمپنیاں رضاکارانہ طور پرجانچ میں شامل ہوں گی۔  سپریم کورٹ میںامیزون کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ گوپال سبرامنیم نے دلائل پیش  کئے  جبکہ سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی فلپ کارٹ کی جانب سے پیش ہوئے۔ وہیں’ سی سی آئی کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے تھے۔  واضح رہے کہ گزشتہ سال دہلی ٹریڈ ایسوسی ایشن نے  امیزون  اور فلپ کارٹ پر مبینہ طور پر  بازار میں مسابقتی ماحول کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا  تھا۔  اس معاملے  میں ٹریڈ اسوسی ایشن وابستہ آف لا ئن دکانداروں کا کہنا  تھا کہ دونوں آن لائن خردہ فروش کمپنیاں اپنے ای کامرس پلیٹ فارمز پر   مصنوعات فروخت کرنےوالی چنندہ کمپنیوں کو ر اغب  کرنےکیلئے مختلف رعایتی آفرز پیش  کرتی ہیں اور اس کے تحت اپنے پلیٹ فارم پر  موبائل فون کی خصوصی  لانچنگ کرنے کو ترجیح د یتی ہیں۔ ٹریڈ اسوسی ایشن نے اس معاملے میں دونوں کمپنیوں کے خلاف کمپٹیشن کمیشن آف انڈیا (سی سی آئی) میں شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے مدنظر’سی سی آئی‘ نے کمپٹیشن ایکٹ ۲۰۰۲ء‘ کی دفعہ۲۶( ۱) تحت تفتیش کرنے کی ہدایت دی کہ آیا یہ کمپنیاں مذکورہ ایکٹ کی خلاف ورزی تو نہیں کررہی ہیں۔  ’رائٹرز‘ کے مطابق اپنی تفتیش میں سی سی آئی نے فلپ کارٹ سے۳۲؍حساس سوالات پوچھے تھے اور کمپنی سے اس کے ٹاپ سیلرز کی فہرست ، آن لائن رعایتی آفرز اور اسمارٹ فون کمپنیوں کے ساتھ  اس کےسودوں کی تفصیلات مانگی تھیں۔ کشھ اسی طرح کے سوالات کے جوبات امیزون سے بھی طلب کئے گئے تھے۔ اس  پر دونوں کمپنیاں ا اپنے خلاف سی سی آئی کی تحقیقات کو روکنے  کیلئے عدالت سے رجوع ہوئیں ۔دونوں کمپنیوں کا کہنا  تھاکہ انہوں نے  اپنےکاروبار میںکوئی غیر قانونی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ کمپٹیشن کمیشن کے پاس اس معاملے اتنے شواہد نہیں ہیں کہ وہ ان کے خلاف تحقیقات شروع کرسکے لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے سی سی آئی کی تحقیقات کو چیلنج کرنے والی ان کی درخواستوں کو خارج کر دیا تھا جس کے بعد دونوں  کمپنیوںنے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ذرائع کے مطابق فلپ کارٹ نے اس تحقیقات کو رکوانے کیلئے سپریم کورٹ میں ۷۰۰؍ صفحات کی اپیل دائر کی تھی اور امیزون نے اپنے دلائل پرکے ضخیم دستاویزات پیش کئے تھے ۔  ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتہ  ہی وزیر تجارت پیوش گوئل نے سی سی آئی کی  تحقیقات میں تعاون نہ کرنے اور قانونی چارہ جوئی شروع کرنے پر دونوں آن لائن کمپنیوں  پر شدید تنقید کی تھی۔  اب سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سی سی آئی کی جانچ میں مداخلت سے انکار کردیا ہے۔ عدالت عالیہ نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ  امیزون اور فلپ کارٹ جیسی بڑی کمپنیاں از خود تحقیقات اور اس معاملے میں اپنی شفافیت  ثابت   کرنےکیلئے آگے آئیں گی لیکن آپ تو اس پر تفتیش بھی نہیں چاہتے ہیں۔ عدالت نے دونوں کمپنیوں کو تحقیقات میں تعاون کیلئے چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔  اب عدالت عالیہ سے اس رخ سے دونوں کمپنیوں کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔اب یہ بھی ممکن ہے کہ مجوزہ ای کامرس قوانین کے سخت نکات سےانہیں مزید مشکلوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK