ماؤنوازوں سے تعلق کے الزام میں ۱۰؍ سال جیل میں رہنےکے بعدامسال مارچ میں رہا ہوئے تھے ،طبیعت بگڑنے پرگزشتہ رات اسپتال داخل کیاگیاتھا جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔
EPAPER
Updated: October 14, 2024, 12:40 PM IST | Agency | New Delhi/Hyderabad
ماؤنوازوں سے تعلق کے الزام میں ۱۰؍ سال جیل میں رہنےکے بعدامسال مارچ میں رہا ہوئے تھے ،طبیعت بگڑنے پرگزشتہ رات اسپتال داخل کیاگیاتھا جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔
دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے سابق پروفیسر اور انسانی حقوق کے کارکن جی این سائی بابا کا سنیچر کی رات حیدرآباد کے نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (این آئی ایم ایس) میں انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر۵۷؍ سال تھی۔ اپنی سرگرمی، تحریری اور تعلیمی شراکت کیلئے معروف سائی بابا کچھ عرصے سے علیل تھے اورطبیعت زیادہ بگڑنے پر انہیں اسپتال داخل کیا گیا تھا۔ انہوں نے سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات ۲؍ بجکر۴۵؍ منٹ پر آخری سانس لی۔ سائی بابا کو۲۰۱۴ء میں ماؤنواز تنظیموں سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ۲۰۱۷ء میں گڈچرولی سیشن کورٹ نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی، تاہم، امسال۵؍ مارچ کو بامبےہائی کورٹ نے انہیں بری کر دیا تھا جس کے بعد ناگپور سینٹرل جیل سے ان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔
پروفیسر جی این سائی بابا نے مئی ۲۰۱۴ء میں اپنی ابتدائی گرفتاری کے بعد ۷؍ سال سے زیادہ جیل میں گزارے۔ سرکاری اسپتال میں علاج کے دوران اس کی موت ہوگئی۔ سائی بابا پت کے انفیکشن اور دیگر عارضے میں مبتلا تھے۔ رواں سال مارچ میں بامبے ہائی کورٹ نے سائی بابا کو ماؤنوازوں سے مبینہ تعلق کے معاملے میں بری کر دیا تھا۔ مہاراشٹر پولیس نے ان پر ممنوعہ سی پی آئی-ماؤنواز کے ساتھ روابط کا الزام لگایا تھا۔ دہلی یونیورسٹی (ڈی یو )میں انگریزی کے پروفیسر سائی بابا کو ان کی گرفتاری کے بعد۲۰۱۴ء میں یونیورسٹی سے بھی معطل کر دیا گیا تھا۔
۲۰۱۴ء میں یو اے پی اے کے تحت مجرم ٹھہرایا گیا تھا
جی این سائی بابا کو مئی۲۰۱۴ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور ۲۰۱۷ء میں گڈچرولی کی ایک عدالت نے انہیں ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت مجرم قرار دیا تھا۔ مارچ میں بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ نے ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو انصاف کی ناکامی قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ یو اے پی اے کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری نہیں لی گئی تھی اور استغاثہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہاکہ ان کے گھر سے قابل اعتراض مواد ضبط کیا گیا تھا۔
جیل سے باہر آنے کے بعد پولیس پرالزامات لگائے
پروفیسر سائی بابا نے امسال جیل سے رہا ہونے کے بعد کہا تھا کہ `جب وہ جیل گئے تھے تو معذوری کے علاوہ انہیں کوئی اور بیماری نہیں تھی لیکن رہائی کے بعد ا ن کا دل صرف۵۵؍ فیصد کام کر رہا تھا اور پٹھوں میں تکلیف رہتی تھی ۔ ان کا جگر اور پت بھی متاثر تھا۔ ان کا دایاں ہاتھ پوری طرح کام نہیں کرتا تھا۔ ان کے ڈاکٹر کا کہنا تھا انہیں کئی آپریشن کرنے کی ضرورت ہے۔
جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا
سائی بابا نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں ناگپور سنٹرل جیل میں ’ایگ سیل‘ (تنہائی قید) میں رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ ذہنی مسائل کا شکار رہے۔ انہوں نے کہا تھا’’ `میں جیل اسپتال نہیں جا سکا۔ جیل میں معذوروں کیلئے ایک بھی ریمپ نہیں تھا اور نہ ہی علیحدہ بیت الخلاء تھا۔ مجھے ہمیشہ ٹوائلٹ اور شاور کیلئے اٹھالے کر لے جایا جاتا تھا۔ کوئی اس طرح کیسے رہ سکتا ہے؟‘‘تحقیقاتی ایجنسیوں کو مبینہ طور پر جے این یو کے ایک طالب علم کی گرفتاری کے بعد سائی بابا کے نام کا پتہ چلا تھا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ چھتیس گڑھ کے ابوجھماڑ کے جنگلات میں چھپے ہوئے ماؤنوازوں اور پروفیسر کے درمیان پیغام رسانی کا کام کر تا تھا۔
’’سائی بابا جدوجہد کرنے والے تھے‘‘
سائی بابا کے دوست اوررفقاء انہیں جدوجہد کی علامت کے طور پر یاد کرتے ہیں ۔ فورم اگینسٹ ریپریشن کے کنوینر کے روی چندر جو سائی بابا کو۳۵؍ سال سے جانتے تھے، کہتے ہیں ’’پروفیسر سائی بابا نے ۹۰-۱۹۸۹ء میں ریزرویشن کے حق میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا، ۱۹۹۳ء میں قیدیوں کے جمہوری حقوق کی حمایت میں تحریک چلائی، قبائلیوں کے حقوق کیلئےآوازاٹھائی اور کئی دیگر عوامی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا۔ حالانکہ وہ آندھرا پردیش سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے ۱۹۹۷ء میں علیحدہ تلنگانہ کے قیام کی حمایت میں ایک بڑے جلسے کی قیادت کی تھی۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے پروفیسر سائی بابا کی وفات پر کہا کہ وہ مظلوموں کے حامی تھے اورانہوں نے خرابی صحت اور خود اپنی آزادی کو لاحق خطرات کے باوجودنا انصافی کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی۔ رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے کہا کہ ان کی موت یو اے پی اے قانون کا جزوی نتیجہ ہے جس میں کسی ملزم کو بغیر کسی ثبوت طویل مدت تک قید میں رکھنے کا التزام ہے۔