Inquilab Logo Happiest Places to Work

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی!

Updated: April 17, 2025, 10:35 AM IST | Agency | New Delhi

پاتور میونسپل کونسل کے اردو میں لکھے گئے سائن بورڈ کے ’’تنازع‘‘ میں شاندار فیصلہ، کورٹ نے اُردو کو ہندوستانی تہذیب کی علامت قرار دیا۔

Syed Burhan Syed Nabi (center), who fought a legal battle for Urdu up to the Supreme Court, with his colleagues. Picture: INN
اردو کیلئے سپریم کورٹ تک قانونی لڑائی لڑنےوالے سید برہان سید نبی (درمیان میں) اپنے ساتھیوں کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کو ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے مہاراشٹر  کے خطہ ودربھ میں واقع پاتور میونسپل کونسل (ضلع اکولہ) کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو نہ صرف درست قرار دیا بلکہ اسے  ہندوستانی تہذیب کی عظیم علامت کے طور پر سراہا بھی۔ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے اس مقدمے ( ورشا تائی بنام ریاست مہاراشٹر) میں زبان، تہذیب اور بھائی چارے کے بارے میں  بصیرت آموز تبصرے کئے جو ہندوستانی عدالتی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
معاملہ کیا تھا ؟
  واضح رہے کہ یہ مقدمہ پاتورشہر کی سابق کونسلر ورشا تائی سنجے باگڑے کی جانب سے دائر کردہ درخواست سے شروع ہوا تھا جنہوں نے میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مہاراشٹرلوکل اتھاریٹیز (سرکاری زبانیں) ایکٹ۲۰۲۲ء کے تحت صرف مراٹھی زبان کا استعمال جائز ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس دعوے کو نہایت سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو مذکورہ قانون اور نہ ہی کوئی دوسری قانونی شق اردو کے استعمال پر پابندی عائد کرتی ہے۔جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین ہند  کے آٹھویں شیڈول میں شامل مراٹھی اور اردو دونوں زبانوں کو برابر کی حیثیت حاصل ہے۔ عدالت نے زور دیا کہ سائن بورڈ پر اردو کا استعمال مقامی لوگوں کی سہولت اور رابطے کے لئے ہے نہ کہ کسی سیاسی یا مذہبی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ 
 اردو ہندوستانی تہذیب کا آئینہ 
 عدالت نے اپنے فیصلے میں اردو زبان کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوستان کی سرزمین  پر جنم لینے والی ایک ہند آریائی زبان ہے جو صدیوں کے ثقافتی امتزاج سے پروان چڑھی۔ بنچ نے افسوس کا اظہار کیا کہ نوآبادیاتی طاقتوں نےہندی اور اردو کے درمیان مصنوعی تقسیم پیدا کی۔ ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں سے جوڑ دیا۔ اس تقسیم نے زبانوں کو مذہبی رنگ میں رنگ دیا جو بھارتی وحدت اور تنوع کے جذبے کے منافی ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا؟
 یہ موقع اردو کے عروج و زوال پر تفصیلی بحث کا نہیں، لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں کا امتزاج شدت پسندوں کے رویے کے باعث متاثر ہوا۔ ہندی زیادہ سنسکرت زدہ اور اردو زیادہ فارسی زدہ ہو گئی۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے اس لسانی تقسیم کو مذہب کی بنیاد پر مزید گہرا کیا۔ ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا، جو حقیقت سے افسوسناک انحراف ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اردو کوئی غیر ملکی زبان نہیں بلکہ اس کی جڑیں ہندوستانی سرزمین میں پیوست ہیں، یہ مختلف ثقافتوں کے باہمی رابطے سے وجود میں آئی اور وقت کے ساتھ شاعری، ادب، اور تہذیب کی ایک اعلیٰ زبان بن گئی۔ کئی عظیم شاعروں نے اسے اپنایا اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
 زبان رابطے کا پل، تقسیم کی دیوار نہیں 
 سپریم کورٹ نے اس بات پر بھی  زور دیا کہ زبان کا بنیادی مقصد رابطہ ہے نہ کہ لوگوں کو تقسیم کرنا۔ اگر پاتور کے مقامی لوگ اردو سمجھتے ہیں تو سائن بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ ساتھ اردو کا استعمال نہ صرف جائز ہے بلکہ عوامی سہولت کے  لئے ضروری بھی ہے۔ عدالت نے کہا کہ میونسپل کونسل  ۱۹۵۶ء سے اردو کا استعمال کر رہی ہے اور مقامی آبادی اسے بخوبی سمجھتی ہے۔ تب سے اب تک کوئی اعتراض نہیں ہوا اور نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہوا تو اب کیوں تنازع پیدا کیا جارہا ہے ؟ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ورشا تائی کا اعتراض قانونی طور پر درست نہیں تھا کیونکہ سائن بورڈ کے بارے میں فیصلہ چیف آفیسر کا اختیار ہے  نہ کہ کسی کونسلر کا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بامبے ہائی کورٹ نے بھی۲۰۲۱ءمیں اسی عرضی کو مسترد کر دیا تھاجس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔
اردو اور ہندوستانی عدالتی نظام
 جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ونود چندرن نے اپنے فیصلے میں ایک خوبصورت مشاہدہ پیش کیا کہ اردو زبان  ہمارے ملک کے عدالتی نظام کا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدالتوں کی زبان میں اردو الفاظ کا گہرا اثر ہے، چاہے وہ دیوانی قانون ہو یا فوجداری۔ `عدالت ، `حلف نامہ ، `پیشی جیسے الفاظ اردو کے اثر کی واضح مثالیں ہیں۔یہ ریمارکس اس بات کی گواہی ہیں کہ اردو نہ صرف روزمرہ زندگی بلکہ  ہندوستان کے قانونی اور عدالتی ڈھانچے میں بھی رچی بسی ہے۔
 گنگا جمنی تہذیب کی جیت 
 عدالت نے اردو کو گنگا جمنی تہذیب کی ایک روشن مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ شمالی اور وسطی  ہندوستان کی مشترکہ ثقافتی روح کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس نے زور دیا کہ زبان مذہب کی نہیں بلکہ قوم، خطے، اور عوام کی ہوتی ہے۔زبان مذہب نہیں ہے،نہ ہی زبان مذہب کی نمائندگی کرتی ہے۔ زبان تہذیب ہے، زبان ایک قوم اور اس کے افراد کی تمدنی ترقی کی کسوٹی ہے۔فیصلہ صرف اردو کے بارے میں نہیں بلکہ ہندوستان کے لسانی تنوع اور بھائی چارے کی روح کو سمجھنے کے بارے میں ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہمیں اپنی زبانوں سے متعلق تعصبات اور غلط فہمیوں کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔

عدالت نے اپنے فیصلے کا اختتام ایک پُرجوش پیغام کے ساتھ کیا کہ ’’ہماری زبانوں کے بارے میں ہماری غلط فہمیوں یا شاید تعصبات کو اس عظیم تنوع کی حقیقت کے سامنے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری طاقت ہماری کمزوری نہیں ہو سکتی۔ آئیے اردو اور ہر زبان سے دوستی کریں۔‘‘یہ الفاظ نہ صرف عدالتی فیصلے کا حصہ ہیں بلکہ ہندوستانی معاشرے کے لیے ایک عظیم پیغام ہیں کہ ہمیں اپنی زبانوں کو تقسیم کا ذریعہ بنانے کے بجائے انہیں رابطے اور اتحاد کا پل بنانا چا ہئے۔ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف اردو زبان کی  حیثیت اور وقار کو بحال کرتا ہے بلکہ ہندوستان کے ثقافتی اور لسانی تنوع کی حفاظت کا عہد بھی دہراتا ہے۔ یہ فیصلہ ہر اس شخص کیلئے ایک سبق ہے جو زبان کو مذہب یا سیاست سے جوڑتا ہے۔ اردو، مراٹھی، ہندی، اور ہر ہندوستانی زبان ہماری مشترکہ میراث کا حصہ ہے  اور انہیں پیار و احترام سے اپنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، یہ فیصلہ ہندوستان کی  کثرت میں وحدت کے جذبے کی جیت ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری طاقت ہمارے تنوع میں ہے، ہمارے اختلافات میں نہیں۔

سپریم کورٹ زندہ باد، اُردو زبان زندہ باد!
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعہ مخالفینِ اُردو کو ایسی باتیں سمجھا دی ہیں جو سمجھانی چاہئے تھیں۔ سیاست کے ظلم و ستم سہنے اور مخالفین کی عصبیت کیلئے تختۂ مشق بننے والی اس زبان کی حیثیت اور شہریت پر سپریم کورٹ جیسے بلند مرتبہ اور حرف ِآخر تسلیم کئے جانے والے ادارہ ہی کا فیصلہ آنا چاہئے تھا۔ خوشی کا مقام ہے کہ فیصلہ آیا اور شایان ِ شان آیا۔ فاضل ججوں  نے صرف فیصلہ نہیں سنایا، اُردو کے حق میں ایسا تبصرہ کیا ہے جسے سند کا درجہ حاصل ہوگا۔ عدالت نے اُردو زبان کی تاریخی اہمیت، تہذیبی حیثیت، عوامی مقبولیت اور علمی و ادبی افادیت کی توثیق کی اور اُردو کی حیثیت کو جان کر بھی نہ جاننے کا سوانگ رچانے والوں کو سمجھا دیا کہ سیاست کرنی ہو تو کہیں اور کریں، زبان کو اس میں نہ اُلجھائیں جو عوام کا اثاثہ ہوتی ہے اور عوام ہی کے ذریعہ بنتی اور پنپتی ہے۔ یہ فیصلہ اُن لوگوں کیلئے تنبیہ ہے جو اُردو کو ہندوستانی ماننے سے یا تو انکار کرتے ہیں یا بخل سے کام لیتے ہیں یا ہر دو اعتبار سے خطاکار ہیں۔ یہ اُن لوگوں کیلئے بھی تنبیہ ہے جو اُردو کو مذہب سے جوڑ کر اسے حاشئے پر لانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں نیز اس زبان کی ترویج و ترقی کے آڑے آتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت یہ لوگ اُردو کی تاریخ کو نظر انداز کرنے کی غلطی کرتے ہیں جو تمام مذاہب کے اشتراک سے مرتب ہوئی ہے اور جس میں میر تقی میر اور اسد اللہ خان غالب ہیں تو برج نرائن چکبست بھی ہیں، ڈپٹی نذیر احمد ہیں تو رتن ناتھ سرشار بھی ہیں، اس میں راجندر سنگھ بیدی، دیا شنکر نسیم، رگھوپتی سہائے فراق اور ایسی بے شمار شخصیات ہیں جنہوں نے اُردو کو سرمایۂ افتخار جانا، اسی سے اپنی شناخت کی اور اسی کے ہوکر رہے۔اہم بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایسے دَور میں آیا ہے جب سیاست تفرقہ پروری میں پہلے سے زیادہ مہارت کا ثبو ت دے رہی ہے اور نت نئے تنازعات پیدا کئے جارہے ہیں۔اس کی وجہ سے ملک کے ماحول میں انتشار اور بے کیفی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اُردو کی مخالفت کے معاملات میں ڈھال بنے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK