سپریم کورٹ کے سخت تبصروں اور اسٹے کے باوجود ۴؍ ہزار سے زائد غیر منظور شدہ مدرسوں کی اے ٹی ایس سے جانچ کروانے پر مُصر
EPAPER
Updated: October 24, 2024, 11:12 PM IST | Lucknow
سپریم کورٹ کے سخت تبصروں اور اسٹے کے باوجود ۴؍ ہزار سے زائد غیر منظور شدہ مدرسوں کی اے ٹی ایس سے جانچ کروانے پر مُصر
اترپردیش کے مدارس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہونے کے باوجود یوگی حکومت اور اس کے ماتحت اداروں کی جانب سے کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔۲۱؍اکتوبر کو غیر منظور شدہ مدرسوں کے خلاف جاری سبھی کارروائیوں پرسپریم کورٹ نے روک لگا دی تھی مگر اسی دن یوپی محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے ایک اورہدایت نامہ ریاست کے سبھی ضلع اقلیتی بہبود کے افسران کوجاری کرکے کہا گیا ہے کہ ۴؍ہزار سے زائد مدارس و مکاتب کی اےٹی ایس جانچ میں تعاون کیا جائے۔اے ٹی ایس اس بات کی جانچ کرےگی کہ مذکورہ مدارس کب سے چل رہے ہیں اور اب تک ان کا رجسٹریشن کیوں نہیں کرایا گیا ہے۔
اترپردیش محکمہ اقلیتی بہبودکی ڈائریکٹر جے ریبھا نے سبھی ضلع اقلیتی بہبود افسران کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے ٹی ایس کے اے ڈی جی نے مدرسوں کی فنڈنگ سے متعلق جانچ کرکے ریاست کے ۴؍ ہزار ۱۹۱؍مدارس و مکاتب کی فہرست مہیاکرائی ہے۔ان مدارس کی اے ٹی ایس افسران کی جانب سے دوبارہ جانچ کی جائے گی اوریہ پتہ لگانے کی کوشش بھی کی جائےگی یہ مدارس کب سے چلا ئے جارہے ہیں اور ابھی تک ان کا رجسٹریشن کیوں نہیں کرایاگیاہے؟ اس کے علاوہ ان کی فنڈنگ اور دیگر پہلوؤں کی مکمل چھان بین،تصدیق وتحقیقات کے بعد واضح اور تفصیلی رپورٹ اے ٹی ایس کے ڈائریکٹر جنرل آفس کو دستیاب کرائی جائےگی۔
محکمہ اقلیتی بہبودکی ڈائریکٹر نے ضلع افسران کوہدایت دی ہے کہ وہ اے ٹی ایس ٹیم کی جانچ میں ہرممکن تعاون کریں۔اس جانچ کےسلسلے میں اترپردیش محکمہ اقلیتی بہبود اور وقف کی ایڈیشنل چیف سیکریٹری ،اے ٹی ایس کے انسپکٹر جنرل، یوپی کے تمام ضلع مجسٹریٹ اور دیگرتمام متعلقہ افسران کو مطلع کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ ۲۱؍ اکتوبرکو جمعیۃ علماء کی عرضی پرسپریم کورٹ نے یوپی کے غیرمنظورشدہ مدرسوں سے متعلق این سی پی سی ،یوپی کے چیف سیکریٹری اور دیگر محکموں کی جانب سے جاری تمام احکامات پر روک لگاتے ہوئے چارہفتوں میں سرکار سے جواب طلب کیا ہے۔
اس بارے میں ’ انقلاب‘ نے جب محکمہ اقلیتی بہبودسے سپریم کورٹ کے ’اسٹے‘ کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے واضح کیا کہ یہ معاملہ غیرمنظورشدہ مدرسوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ صرف ان ’مکاتب‘ کی جانچ کے حوالے سے ہے جو بغیرکسی منظوری اورضروری معیارکے برعکس چلائےجارہے ہیں۔قابل غور بات یہ ہےکہ یوپی کے مدرسوں کی فنڈنگ،مدرسوں میں زیرتعلیم ہندو طلبہ کی تعداد اور انہیں دیگر اسکولوں میں داخل کرانے اور معیارکی جانچ سے متعلق احکامات پہلے بھی جاری ہوچکے ہیں جن پرسپریم کورٹ روک لگا چکا ہے مگراب ایک بارپھرنیا حکم نامہ جاری ہونے سے مدارس سے وابستہ افراد کی تشویش بڑھ گئی ہے۔جمعیۃ علماء کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مسئلے