• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ ملک میں لوجہاد نام کی کسی چیز کا نام ونشان نہیں ہے‘‘

Updated: February 18, 2025, 1:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

دیویندر فرنویس کے مجوزہ لوجہاد قانون کی سماجی اور سیاسی سطح پر مخالفت ’مسلم ستیہ شودھک‘ نامی تنظیم نے اس قانون کی ہر حال میں مخالفت پر زور دیا، ابو عاصم نے بھی تنقید کی۔

Muslims are constantly protesting for their rights. Photo: INN
مسلمانوں کو مسلسل اپنے حقوق کی خاطر احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔ تصویر: آئی این این

وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے ریاست میں ’لوجہاد مخالف‘ قانون بنانے کا اشارہ دیا ہے۔ اس کیلئے انہوں نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ اب سیاسی اور سماجی سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے۔ یاد رہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے حکومت نے تبدیلیٔ مذہب قانون بنایا ہے۔ اول تو یہی قانون آئینی طور پر غلط ہے۔ اس پر اب لوجہاد مخالف قانون کے کیا معنی رہ جاتے ہیں ؟ کئی سماجی تنظیموں نے اس تعلق سے احتجاج کا انتباہ دیا ہے۔ 
  اطلاع کے مطابق پونے کی ’مسلم ستیہ شودھک سماج‘ نامی تنظیم نے دیویندر فرنویس کے مجوزہ لوجہاد مخالف قانون کو غیر آئینی قانو ن قرار دیا ہے اور اس کی مخالفت کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ تنظیم کے سربراہ شمس الدین تمبولی کا کہنا ہے کہ ’’ تبدیلیٔ مذہب کے خلاف جو قوانین لائے جا رہے ہیں ان کا مقصد سماج میں منافرت پیدا کرنا ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا ’’ زبردستی، لالچ دے کر یا جعلسازی کے ذریعے مذہب تبدیل کروانا یوں بھی قانونی طور پر جرم ہے۔ اب ایسی صورت میں مزید قانون کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘شمس الدین تمبولی نے کہا کہ ’’ ایک طرف زعفرانی طاقتیں گھر واپسی کی حمایت کرتی ہیں ، دوسری طرف لوجہاد جو سرے سے وجود ہی میں نہیں ہے اس کے خلاف قانون بنایا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا ’’ ملک بھر میں لو جہاد کے اب تک کتنے معاملے درج کئے گئے ہیں ؟ اگر کہیں ایسا معاملہ سامنے بھی آیا ہے تو اس کے خلاف ملک میں موجود قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے لیکن یہ جو لو جہاد مخالف قانون لانے کی بات کی جا رہی ہے وہ دراصل پورے مسلم سماج کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ اس سے یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ پورا سماج اس طرح کرتا ہے۔ ‘‘شمس الدین تمبولی نے کہا ’’ اسی طرح کا معاملہ لائوڈ اسپیکر کا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے مقرر کر دہ پیمانوں کے خلاف لائوڈ اسپیکر کی آواز رکھی جاتی ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہئے لیکن یہ کارروائی ہر جگہ ہونی چاہئے صرف مسجدوں ہی کے لائوڈ اسپیکر کو نشانہ بنانا یہ سراسر غلط ہے۔ ‘‘ انہوں  نے کہا ملک میں اسپیشل میرج ایکٹ ۱۹۵۴ء کے تحت کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو کسی بھی مذہب کے لڑکے یا لڑکی سے شادی کرنےکی اجازت ہے۔ ایسی صورت میں تبدیلی مذہب کے نام پر جو قانون لایا جا رہا ہے وہ غیر آئینی ہے۔ مسلم ستیہ شودھک سماج ا سکی سخت مخالفت کرے گا۔ 
 لوجہاد مخالف قانون کا کوئی جواز نہیں 
  ٹھیک اسی طرح کی مخالفت مہاراشٹر سماج وادی پارٹی کے صدر ابوعاصم اعظمی نے بھی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوجہاد قانون کا مقصد مسلمانوں کو ہراساں کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوجہاد نام کی کسی چیز کا نام و نشان نہیں ہے۔ یہ قانون صرف مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے بنایا جارہا ہے۔ رکن اسمبلی نے کہا کہ یہ ملک دستورسے چلے گا۔ ۱۸؍ سال سے بڑے یعنی قانونی طور پر بالغ لڑکا اور لڑکی کو اپنا من پسند شریک حیات منتخب کرنے کا اختیار دستور نے دیا ہے۔ بین المذہب شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کتنی مسلم لڑکیوں نے ہندو لڑکوں سے شادی کی ہے لیکن جب کوئی ہندو لڑکی مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے لڑکی کو یہ کہنے پر مجبور کیاجاتا ہے کہ اس کا زبردستی دھرم تبدیل کروایا گیا ہے۔ لڑکی کے اہل خانہ اور ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلم کنبہ کو دھمکی دےکر کیس تیار کیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی مسلم لڑکی نے ہندو لڑکے سے شادی کی تو ایسا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کو ہی پریشان و ہراساں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شریعت میں نکاح کے لئے لڑکی کا ہم مذہب ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی کو نکاح کرنا ہے تو اسلام مذہب شامل ہونا لازمی ہے تو کہاں سے تبدیلیٔ مذہب کا سوال پیدا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ملک میں نفرت پیدا کرنے اور مسلمانوں کو پریشان اور ہراساں کر نے کیلئے قانون لایا جارہا ہے۔ اس کا کوئی اور مقصد نہیں ہے او ر نہ ہی لوجہاد قانون کا کوئی جواز ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK