• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تیسرا یوٹرن، لیٹرل تقرری واپس لے لی

Updated: August 21, 2024, 11:59 AM IST | Inquilab News Network | New Delhi

لانگ ٹرم کیپٹل گین ٹیکس اور براڈ کاسٹ بل واپس لینے کے بعد اپوزیشن کے دبائو میں مودی سرکار کو آئی اے ایس کے عہدوں کی نجکاری کا فیصلہ بھی واپس لینا پڑا، مودی حکومت نے جواز پیش کیا کہ سابقہ حکومتوں میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، اپوزیشن نے اسے اپنی فتح قرار دیا۔

Union Minister Prahlad Joshi, Prime Minister Modi, Union Minister Jitendra Singh and Union Minister Arjun Ram Meghwal. Photo: INN
مرکزی وزیر پرہلاد جوشی ، وزیر اعظم مودی ، مرکزی وزیر جتیندر سنگھ اور مرکزی وزیر ارجن رام میگھوال۔ تصویر : آئی این این

حیرت انگیز طور پر مودی حکومت نے اپنے اب تک کے۷۵؍ دنوں کےتیسرے دور حکومت میں تیسری مرتبہ اپنے فیصلے پر یوٹرن لیتے ہوئے اپوزیشن کا دبائو قبول کرلیا ہے۔   تازہ یوٹرن کے معاملے میںمرکزی حکومت لیٹرل انٹری(آئی اے ایس کے عہدوں کی نجکاری ) پر اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔  منگل کو حکومت نے یو پی ایس سی کو ہدایت دی کہ ۱۷؍اگست کو اس نے جو اشتہار جاری کیا تھا اسے واپس لے لیا جائے۔ دراصل جب سے یہ اشتہار جاری ہوا ہے، تبھی سے اسے اپوزیشن کے زبردست حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ یہی نہیں این ڈی اے کی حلیف جماعتیں جے ڈی یو اور ایل جے پی بھی اس فیصلے کے خلاف آگئیں تھیں۔ چو طرفہ دباؤ کی وجہ سے مودی حکومت کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کے  لئے مجبور ہونا پڑا۔ اس سلسلے میں اشتہار پر روک لگانے کے  لئے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتندر سنگھ نے یو پی ایس سی کے چیئرمین کو خط لکھ دیا ہے۔ واضح رہے کہ ۴؍ جون کو الیکشن کے نتائج آنے کے بعد سے مودی سرکار کو تیسری مرتبہ واضح طور پر بیک فٹ پر جانا پڑا ہے۔ پہلی مرتبہ اسے بجٹ میں کئے گئے لانگ ٹرم کیپٹل گین ٹیکس  سے انڈیکسیشن کا فائدہ ختم کردینے کے اعلان کو سخت احتجاج اور سوشل میڈیا پر سرکار کی ہزیمت کے بعد واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔  دوسری مرتبہ اسے  براڈ کاسٹنگ بل پر اپنے قدم پیچھے ہٹانے پڑے کیوں کہ اس پر بھی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ پوری انڈسٹری  نےسخت احتجاج کیا تھا ۔اگر اس میں وقف بل کو جے پی سی میں بھیجنے کا معاملہ بھی جوڑ لیا جائے تو لیٹرل انٹری والا معاملہ چوتھا ہو جائے گا۔ 
یاد رہے کہ مرکزی حکومت نے ۱۷؍اگست کو ایک اشتہار جاری کیا تھا جس میں لیٹرل انٹری (براہ راست تقرری) کے ذریعہ ۴۵؍ جوائنٹ سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری اور ڈائریکٹر  لیول کی  اسامیاں نکالی گئی تھیں۔ اس کے تحت امیدوار بغیر یو پی ایس سی امتحان کے مقرر کردئیے جاتے ہیں۔  اس میں ریزرویشن کے ضابطوں کا فائدہ بھی نہیں دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی تقرریوں پر اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے سخت  اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ لیٹرل انٹری کے ذریعہ تقرری کرکے کھلے عام ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی طبقہ کے لوگوں کا ریزرویشن چھینا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی این ڈی اے کی حلیف جماعت ایل جے پی سربراہ چراغ پاسوان اور جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی نے بھی اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی تھی۔
  یہ فیصلہ واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے پرسنل، عوامی شکایات اور پنشن کے مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے  دعویٰ کیا کہ حکومت  ملازمتوں میں ریزرویشن کے نظام کی پابند ہے اور اسے سماجی انصاف کی بنیاد کا پتھر مانتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی تقرریاںپہلے بھی ہوئیں جس میں ریزرویشن کو مدنظر نہیں رکھا گیا ۔ انہوں نے  یہ دعویٰ بھی کیا کہ  یوپی اے حکومت میں بھی ایسی کئی تقرریاں ہوئیں جن پر اعتراض کیا گیا تھا  جبکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اور مونٹیک سنگھ اہلوالیہ کا تقرر بھی اپنے اپنے دور میں اسی طرح سے ہوا تھا ۔ اس پر تو کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔                  
اس معاملے میں سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ یوپی ایس سی میں براہ راست تقرری  پچھلے دروازے سے ریزرویشن کو ختم کرنے کی کوشش تھی جسے’ پی ڈی اے ‘ کے اتحاد کے سامنے جھکنا پڑا اور فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اکھلیش یادو نے کہا کہ بی جے پی کی سازش اب کامیاب نہیں ہوپارہی ہے۔ یہ پی ڈی اے میں آئی بیداری کی بہت بڑی جیت ہے۔  ان حالات میں سماج وادی پارٹی  لیٹرل تقرر ی کے خلاف تحریک کی اپیل کو ملتوی کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ عزم کرتی  ہے کہ مستقبل میں بھی ایسی کسی چال کو کامیاب نہیں ہونے دے گی  اور پرزور طریقے سے اس کی فیصلہ کی مخالفت کرے گی۔ اکھیلش کے مطابق اس فیصلے نے واضح کردیا تھا کہ مرکزی حکومت کسی بھی قیمت پر ریزرویشن ختم کردینا چاہتی ہے اور اس کی شروعات وہ اعلیٰ عہدوں سے کررہی ہے۔ وہاں صرف آر ایس ایس کے لوگ تعینات کئے جارہے ہیں۔ہم یہ قطعی برداشت نہیں کریں گے ۔واضح رہے کہ براہ راست تقرری کی وجہ سے پورا اپوزیشن متحد ہو گیا تھا اور کھل کر اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کر رہا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK