آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ نے بھی عرضداشت داخل کی، مزید کئی درخواستیں سپریم کورٹ پہنچ سکتی ہیں، فوری سماعت کی استدعا پر چیف جسٹس کا مثبت جواب۔
EPAPER
Updated: April 08, 2025, 9:55 AM IST
آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ نے بھی عرضداشت داخل کی، مزید کئی درخواستیں سپریم کورٹ پہنچ سکتی ہیں، فوری سماعت کی استدعا پر چیف جسٹس کا مثبت جواب۔
مودی حکومت کے ذریعہ اکثریت کے بل پر پاس کئے گئے وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل ہونےوالی پٹیشنوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ پیر کو جب یہ خبر لکھی جارہی ہے، سپریم کورٹ میں ۱۳؍ پٹیشن داخل ہوچکی ہیں۔ اس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی پٹیشن بھی شامل ہے جو پیر کو داخل کی گئی۔اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ میں پیش ہوکر سینئر وکیل کپل سبل نے مذکورہ پٹیشن پر فوری سماعت کی اپیل کی جس پر جسٹس کھنہ نے مثبت جواب دیتے ہوئے اس پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی پٹیشن
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنی پٹیشن میں وقف ایکٹ میں پارلیمنٹ میں منظور شدہ ترمیمات پر سخت اعتراض کیا ہے اور اسے من مانی اور امتیاز و تفریق پر مبنی قرار دیا ہے۔ بورڈ نے کہا کہ یہ ترمیمات نہ صرف بنیادی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرانےولی دستور ہند کی دفعہ۲۵؍ اور۲۶؍سے متصادم ہیں بلکہ ان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت مسلم اقلیت کو وقف کے انتظام و انصرام سے بے دخل کرکے اس کا سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد نے اس پٹیشن کو مرتب کیاہے جبکہ بورڈ کی جانب سے اس کیس کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایڈوکیٹ طلحہ عبدالرحمن ہیں۔بورڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ پٹیشن جنرل سیکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی کی طرف سےدائر کی گئی ہے۔
بنیادی حقوق کی خلاف ورزی
پٹیشن میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک کے دستور کی بنیادی حقوق کی دفعہ۲۵؍ اور۲۶؍ ملک کے ہر شہری کو ضمیر کی آزادی کے علاوہ اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی آزادی بھی فراہم کرتی ہے، مزید برآں، ان دفعات کے ذریعہ آئین ہند مذہبی و فلاحی کاموں کیلئے ادارے قائم کرنے اور انہیں اپنے طور پر چلانے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ تاہم پارلیمنٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ کو پاس کرکے قانون میں جو تبدیلیاں کی ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کواس بنیادی حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ بورڈ نے سپریم کورٹ کے سامنے سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈوں کے تشکیل کے تعلق سے کی گئیں ترمیمات کو بطور مثال پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’یہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی کسی کے اسلام قبول کرنے کے ۵؍ سال بعد ہی وقف کرنے کی اجازت کی شرط بھی نہ صرف ملکی قانوں اور دستور کی دفعہ۲۵؍ کے خلاف ہے بلکہ شریعت سے بھی متصادم ہے۔
جلد سماعت کی اپیل پر کورٹ نے کیا کہا
سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ وہ وقف (ترمیمی) ایکٹ ۲۰۲۵ءکو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر بروقت پر غور کرے گی۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نےمولانا ارشد مدنی اور دیگر کی پٹیشن پر پیش ہونے والے سینئر وکیل کپِل سبل اور اے ایم سنگھوی کی طرف سے جلد سماعت کے لئے ’’خصوصی تذکرہ‘‘ کئے جانے پردرخواست پر بروقت غور کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ عرضی داخل کرنے والوں میں کانگریس ایم پی محمد جاوید، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور ایم پی اسد الدین اویسی اور دہلی سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان شامل ہیں۔ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس، جمعیۃ علماء ہند، سمستا کیرالا جمعیۃ العلماء اور انجمن قادری جیسی تنظیموں نے بھی سپریم کورٹ میں رٹ عرضیاں دائر کی ہیں۔
پیر کو مزید کس کس نے پٹیشن داخل کی
پیر کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے علاوہ ڈی ایم کے اور کانگریس کے رکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی نے بھی مودی سرکار کے قانون کو چینج کرتے ہوئے پٹیشن داخل کی ہے۔ ڈی ایم کے نے رکن پارلیمان اے راجا کی جانب سے پٹیشن فائل کی ہے۔ راجا نے اس سلسلے میں جاری کئے گئے بیان میں کہا ہے کہ یہ قانون مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے اعتراضات کے باوجود من مانے طو رپر پاس کرایاگیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون تمل ناڈو کے ۵۰؍ لاکھ اور ملک بھر کے ۲۰؍ کروڑ مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔