ٹائمز آف اسرائیل کا اعتراف، ۱۴؍ نکات میں تل ابیب کی ناکامیوں اور حماس کی کامیابیوں کا احاطہ کیا، دوٹوک انداز میں کہا کہ صہیونی ریاست نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا
EPAPER
Updated: January 21, 2025, 10:19 PM IST | Tel Aviv
ٹائمز آف اسرائیل کا اعتراف، ۱۴؍ نکات میں تل ابیب کی ناکامیوں اور حماس کی کامیابیوں کا احاطہ کیا، دوٹوک انداز میں کہا کہ صہیونی ریاست نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا
غزہ پر ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے ۱۸؍ جنوری ۲۰۲۵ء تک جاری رہنےوالے فضائی اور زمینی حملوں میں اسرائیل نے بھلے ہی انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کرنے ، ۴۷؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردینے اور پورے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دینے میں کامیابی حاصل کرلی ہو مگر جنگ کا نتیجہ اس کے حق میں نہیں ہے بلکہ جنگ بندی معاہدہ اس کی کھلی شکست ہے۔اس کا برملا اعتراف اسرائیل کے اہم اخبار’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ نے کیا ہے۔ مذکورہ اخبار کے قلمکار ڈیوڈ کے ریس نے نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل اس جنگ میں ان اہداف کو حاصل نہیں کرسکا جن کیلئے اس نے یہ جنگ چھیڑی تھی۔
’’حماس کی کھلی کامیابی اور اسرائیل کی ہار‘‘
ٹائمز آف اسرائیل نے جنگ بندی معاہدہ کو حماس کی فتح قرار دیتے ہوئے مذکورہ مضمون میں لکھا ہے کہ ’’۱۶؍ برسوںسے(جب سے غزہ پر حماس کی حکومت آئی ہے) اسرائیل اپنے دفاع کیلئے یکے بعد دیگرے جنگ کرنے پر مجبور ہے۔ اس نے ۱۹۴۸ء، ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء کی جنگوں میں فتح حاصل کی۔ ۲۰۱۶ء میں حزب اللہ کے ساتھ لڑائی میں معاملہ برابری پر ختم ہوا مگر اب صورتحال بدل گئی ہے۔ حماس کے ساتھ جو امن معاہدہ ہوا ہےوہ حماس کی کھلی کامیابی اور اسرائیل کی شکست ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ غزہ میں لوگ جشن منارہے ہیں۔‘‘
اسرائیل کی ناکامی ۱۴؍ نکات میں
اس کے ساتھ ہی ٹائمز آف اسرائیل نے ۱۴؍ نکات کے ذریعہ یہ سمجھایا ہے کہ اس جنگ میں حماس کی فتح کیسے ہوئی ہے۔(تمام ۱۴؍ نکات صفحہ ۸؍پر ملاحظہ کریں۔) اخبار کے مطابق اِس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ عالمی سطح پر رائے عامہ اس کے خلاف ہوگئی ہے ۔دوم اس کے اہم اتحادی امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات میں شدید دراڑ پڑ گئی ہے۔ بتایا جارہاہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ٹیم ان کی حلف برداری سے قبل ہی تل ابیب کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آئی اور ان ہی نکات پر جنگ بندی کے معاہدہ پر راضی ہونے پر مجبور کردیاجن نکات کو وہ پہلے مسترد کرچکی تھی۔
فلسطینیوںکا قتل عام
یہ اہم بات ہے کہ ۱۵؍ ماہ تک غزہ پر بمباری کرنے،اسے کھنڈر میں تبدیل کردینے اوراس کے چپے چپے پر اسرائیلی فوجیوں کے دندناتے ہوئے پہنچ جانے کے باوجود تل ابیب کی فوج ایک بھی یرغمال کو رہا نہ کراسکی بلکہ حماس کے آگے جھکتے ہوئے ایک یرغمال کی رہائی کیلئے ۳۰؍ فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر راضی ہونا پڑا۔اتنا نہیں حماس کی قید میں موجود خاتون اسرائیلی فوجیوں کے بدلے میں تل ابیب کو فی فوجی ۵۰؍ قیدی رہا کرنے ہوںگے۔ دیگر عالمی مشاہدین بھی یہی سوال کررہے ہیں کہ اسرائیل اگر غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کے باوجود اپنے یرغمالوں کی رہائی کیلئے ایک کے عوض ۳۰؍ قیدی رہا کرنے پر مجبور ہے تو پھر ۱۵؍ مہینوں تک اس کی بمباری اس کے لئے بالکل بے نتیجہ ہے۔
جنگ کا بنیادی ہدف حاصل نہیں ہوا
ڈیوڈ کے ریس نے نشاندہی کی ہے کہ جنگ شروع کرتے وقت اسرائیل نے اپنا بنیادی ہدف حماس کا خاتمہ قرار دیاتھا مگر وہ اس میں ناکام ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ تل ابیب نے حماس کے کچھ لیڈروں کو شہید تو کردیامگر نئے لیڈر اُن کی جگہ لے لیں گے جبکہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی غزہ میں حماس کے ۱۲؍ ہزار جنگجو موجود ہیں۔ اخبار نے نشاندہی کی ہے کہ نیتن یاہو کی قیادت میں صہیونی حکومت ایسا کچھ بھی حاصل نہیں کرسکی جو ۶؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء (یعنی حماس کے حملے سے قبل) اس کے پاس نہیں تھا۔ اس کے برخلاف نہ صرف یہ کہ ۷؍ اکتوبر کے بعد غزہ کی سرزمین پر حماس نے اسرائیل کے ۴۰۰؍ سے زائد فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ جنگ کی قیمت اسرائیلی معیشت کو بری طرح چکانی پڑ رہی ہے۔ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی معاشی سرگرمیوں میں ۲۰؍ فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ اس کا قرض بڑھ گیا ہے۔ ڈیوڈ کے ریس نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اتنا سب کھودینے کے بعد بھی اسرائیل کو غزہ سے انخلاء پر مجبور ہونا پڑا اور وہاں حماس کا قبضہ برقرار رہے گا۔
اسرائیل کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا
یہ ذیلی سرخی قائم کرتے ہوئے کہ اسرائیل نے اس جنگ سے ایسا کیا حاصل کرلیا جو ۶؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے قبل اس کے پاس نہیں تھا، ڈیوڈ کے ریس نے ایک جملےمیں جواب دیا ہے کہ ’’ کچھ بھی نہیں۔‘