میزائل حملوں سے بوکھلا جانے کے بعد تل ابیب کسی بھی حدتک جاسکتا ہے، صہیونی ریاست تہران کے دفاعی نظام کو تباہ کردینےا ور سیاسی قائدین کو نشانہ بنانے کے امکانات پربھی غور کررہی ہے، مشرق وسطیٰ پر طویل مدتی جنگ کا خطرہ شدید تر۔
EPAPER
Updated: October 03, 2024, 10:48 AM IST | Tal Aviv
میزائل حملوں سے بوکھلا جانے کے بعد تل ابیب کسی بھی حدتک جاسکتا ہے، صہیونی ریاست تہران کے دفاعی نظام کو تباہ کردینےا ور سیاسی قائدین کو نشانہ بنانے کے امکانات پربھی غور کررہی ہے، مشرق وسطیٰ پر طویل مدتی جنگ کا خطرہ شدید تر۔
منگل کی رات تل ابیب میں اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں اور موساد کے ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بناکر ایران کی جانب سے کئے گئے میزائل حملوں نے صہیونی ریاست کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ اسرائیل شدید تر جوابی کارروائی کے امکانات پر غور کررہاہے جس میں ایران کے تیل کے ذخائر اور نیوکلیائی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے متبادل شامل ہیں۔ دوسری طرف ایران نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ اگر ایران نے جوابی کارروائی کی تو اس سے بھی شدید حملہ کیا جائےگا۔
جوابی حملے پر قیاس آرائیاں
اسرائیل میں منگل کو مقامی وقت کے مطابق رات ۸؍ بجے کے آس پاس ہونے والے ایرانی حملوں نے پورے ملک پر سکتہ طاری کردیاتھا۔ تل ابیب کی کم وبیش پوری آبادی بنکر میں منتقل ہونے پر مجبور ہو گئی جبکہ وزیراعظم نیتن یاہو تک کو جان بچانے کیلئےکئی گھنٹے بنکر میں گزارنے پڑے۔ پورا ملک دہشت کے سائے میں رہا جس کے بعد اسرائیلی حکام بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جوابی حملے کے طور پر تل ابیب جن متبادلات پر غور کر رہاہے ان میں ایران کے نیوکلیائی ٹھکانوں اوراس کی تیل کے ذخائر کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے فضائی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا دینے اور ایرانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کا متبادل بھی زیر غور ہے۔
سیکوریٹی کابینہ کی میٹنگ بنکر میں ہوئی
منگل کو اسرائیل پر ایرانی حملوں کے فوراً بعد خوف کے عالم میں سیکوریٹی کابینہ کی میٹنگ بنکر میں منعقد کی گئی جس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ اسرائیل ایران کے حملوں کا جواب فوجی طور پر دے گا مگر یہ طے نہیں ہوا کہ یہ جواب کس نوعیت کا ہوگا۔ حملے کی نوعیت سے متعلق کسی نتیجے پر نہ پہنچ پانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ سے صلاح و مشورہ ضروری ہے۔ اسرائیل پر ایران کے حملے کےبعد دونوں ملک ایک دوسرے کو جس طرح دھمکیاں دے رہے ہیں اور جو صورتحال بن رہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے ماہرین نے مشرق وسطیٰ طویل مدتی جنگ کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اسرائیل نے جہاں ایران کو بہت سخت جواب دینے کی دھمکی دی ہے وہیں تہران نے اعلان کیا ہے کہ تل ابیب کی ایسی کسی بھی حرکت کو جواب اس سے بھی شدید حملے کی شکل میں دیا جائےگا۔ ایک طرف جہاں اسرائیل کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے تو روس ایران کا اتحادی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای منظر عام پر آئے، اِس سے بھی شدید حملے کا انتباہ
ایران کی جانب سے اسرائیل پر ۱۸۰؍ بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعد ملک کے سپریم کورٹ لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے تل ابیب کو متنبہ کیا کہ ایران کا اگلا حملہ اس سے بھی زیادہ شدید ہوگا۔ اُنہوں نے فارسی اور عبرانی زبان میں ایکس پوسٹ میں اعلان کیا ہے کہ ’’ اللہ کی مدد سے مستقبل میں صیہونی حکومت اور اس کے خستہ حال ڈھانچے پر مزاحمتی حملے مزید مضبوط اور درد ناک ہوں گے۔ وہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد بدھ کو پہلی بار عوامی سطح پر نظر بھی آئے۔ خامنہ ای نے طلبہ کے ایک پروگرام سے خطاب کیا۔