لیکن ملبے اور تباہی کے علاوہ حد نظر تک کچھ نہیں ہے، ہزاروں افراد اپنے مکانات کے ملبے کے پاس ہی عارضی خیمے بناکر رہنے پر مجبور ، ڈیڑھ لاکھ خیموں کی ضرورت ہے
EPAPER
Updated: January 28, 2025, 11:43 PM IST | Gaza
لیکن ملبے اور تباہی کے علاوہ حد نظر تک کچھ نہیں ہے، ہزاروں افراد اپنے مکانات کے ملبے کے پاس ہی عارضی خیمے بناکر رہنے پر مجبور ، ڈیڑھ لاکھ خیموں کی ضرورت ہے
اسرائیل کی جانب سے حملے بند ہونے کے بعد غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کی شمال کی جانب واپسی کا سلسلہ منگل کو دوسرے روز بھی جاری رہا ۔ اس دوران اہل غزہ کے چہروں پر خوشی تو نظر آئی لیکن ان کی آنکھوں میں آنسو بھی واضح تھے۔ خوشی اس لئے کہ ڈیڑھ سال کی خونریز جنگ کے بعد انہیں اپنے علاقے اور اپنے شہر میں واپس آنے کا موقع ملا ہے لیکن آنکھوں میں آنسو اس لئے کیوں کہ ا ن کے مکانات اسرائیل نے تباہ و برباد کردئیے ہیں۔ اب وہاں صرف ملبہ باقی ہے اور تباہی اپنی داستان سنارہی ہے۔ منگل تک تقریباً ۳؍ لاکھ فلسطینی شمالی غزہ پہنچ چکے تھے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے اور یہ بے گھر بھی ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ یہ تمام لوگ اپنے اپنے مکانات کے پاس عارضی خیمے بناکر رہ رہے ہیں یا رہنے کا انتظام کررہے ہیں۔
حماس کا بیان
حماس نے تصدیق کی ہے کہ اس کی گنتی کے مطابق گزشتہ روز سے اب تک تقریباً تین لاکھ بے گھر فلسطینی غزہ کے شمال میں اپنے گھروں کو واپس آئے ہیں۔ واپس آنے والے ۹۰؍ فیصد افراد اپنے گھروں سے محروم ہیں جو ان کا ٹھکانا بن سکیں۔ حماس کے مطابق غزہ کے شمالی حصہ میں فی الحال نہ مکان بنایا جاسکتا ہے اور نہ بے گھر افراد کے استقبال کے لئے کوئی اہم کام کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت وہاں سب سے بڑا مسئلہ ملبہ ہٹایا اور بنیادی سہولتوں کو بحال کرنا ہے۔
مدد کی اپیلیں
غزہ انفارمیشن بیورو نے فوری امداد کی اپیل کی ہے جس میں واپس آنے والوں کے ٹھکانے کے لئے خیموں کی فراہمی بھی شامل ہے۔اس وقت غزہ کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ انفارمیشن بیورو کے مطابق شمالی حصے میں واپس آنے والوں کو کم از کم ۱ء۳۵؍ لاکھ خیموں کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت عالمی امداد سے ہی پوری کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں غزہ اتھاریٹی کے اراکین اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کچھ دیگر ایجنسیاں بھی اس علاقے میں کام کررہی ہیں۔
واپس آنے والوں کا سیلاب
غزہ کے شمال کی سمت آنے والے دونوں مرکزی راستوں پر لاکھوں فلسطینیوں کا سیلاب نظر آرہا ہے۔ یہ لوگ کئی ماہ تک عارضی پناہ گاہوں میں رہنے کے بعد خوشی اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔بے گھر افراد نے بحیرہ روم کے متوازی راستے پر پیدل شمالی حصے کا رخ کیا ہے۔ ان میں بعض لوگوں نے شیر خوار بچوں کو کندھوں پر اٹھا رکھا ہے یا پھر ان کے کندھوں پر سامان ۔ہجوم کے درمیان بچے بھی نظر آئے جنہوں نے سردی سے بچنے کے لیے جیکٹیں پہنچ رکھی تھیں اور ان کی کمروں پر بیگ تھے۔ اس دوران بہت سے مرد حضرات عمر رسیدہ افراد کو وہیل چیئر پر بٹھا کر رواں دواں تھے۔ بعض گھرانے اس موقع پر سیلفیاںبھی لے رہے تھے لیکن اس وقت علاقے میں موبائل فون ایک لگژری ہےجو بہت کم لوگوں کے پاس ہے۔
۷؍ کلومیٹر کا سفر پیدل
شمالی غزہ سے بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی جاری ہے۔ وادی غزہ کے شمال میں رشید اور صلاح الدین شاہراؤں پر ہر جگہ بھیڑ نظر آرہی ہے۔ ہزاروں بے گھر افراد نے غزہ اور شمالی غزہ میں اپنے رہائشی علاقوں کی طرف واپسی کا سفر شروع کردیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ ۷؍ سے ۱۰؍ کلومیٹر تک پیدل چلنے کو بھی ترجیح دے رہے ہیں۔پیر سے منگل کی شام تک ۳؍ لاکھ سے زائد افراد واپس آئے ہیں۔
حماس کی جانب سے رہنمائی
اس موقع پر حماس تنظیم کی جانب سے مقرر کئےگئے سرخ جیکٹوں میں ملبوس ذمہ داران لوگوں کو ساحلی راستے کی سمت رہنمائی کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ سات اکتوبر ۲۰۲۳ء کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد چھڑنے والی جنگ کے دوران غزہ کے شمال سے تقریبا۶ء۵؍ لاکھ فلسطینی اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے تھے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۴۷؍ ہزار سے زائد فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے ایک طرح سے شکست قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کا معاہدہ کیا ہے۔