آئین پر بحث کے دوران سماج وادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقراء حسن چودھری نے ملک بھر میں اقلیتوں کیخلاف جاری مظالم پر زوردار طریقے سے آواز بلند کی، سنبھل پر بھی سرکارکو آئینہ دکھایا۔
EPAPER
Updated: December 18, 2024, 12:23 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
آئین پر بحث کے دوران سماج وادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقراء حسن چودھری نے ملک بھر میں اقلیتوں کیخلاف جاری مظالم پر زوردار طریقے سے آواز بلند کی، سنبھل پر بھی سرکارکو آئینہ دکھایا۔
میں سب سے پہلے آئین سازوں کی دوراندیشی کو سلام کرتی ہوں۔ایک نوجوان رکن پارلیمان کے طو رپر میں اپنی امیدوں کو آئین کے ساتھ جوڑ کر یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آج ہمارے ملک میں پسماندہ طبقات، دلت اور اقلیتوں کو کس طرح اپنے آئینی حقوق اور آزادیوں کی حفاظت کیلئے ہر روز مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکرکےایک قول سے اپنی بات کی شروعات کرون زگی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’مجھے اپنے ہندوستان پر فخر ہے کہ جس پر ایسا آئین ہے جو جمہوریت، سماجواد اور سیکولرزم کو ایک دھاگے میں پروتا ہے‘‘، لیکن آج ایسا لگتا ہے کہ جیسے آئین کی کتاب تو ہے مگر اسے نافذ کرنے والوں کا ایمان کھو گیاہے۔
آج ہندوستان میں ہر طبقے کو کسی نہ کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہاہے مگر اقلیتوں اور بطور خاص مسلمانوں پر جو قہر ٹوٹا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ یہ لوگ صرف اپنی مذہبی پہچان کی وجہ سے نشانہ بنائے جارہے ہیں۔آئین کا آرٹیکل ۱۵؍ کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب ،ذات پات یا کسی اور وجہ سے امتیاز نہیں برتا جانا چاہئے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ نفرت انگیزی پر مبنی تقریریں، ہجومی تشدد اور بلڈوزر کے ذریعہ لوگوں کے گھروں کو منہدم کردینے کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر اتر پردیش میں، جہاں ایسا لگتا ہے جیسے قانون کے نام پر جنگل راج چل رہاہے۔
سنبھل میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ پولیس کی نگرانی میں بے قصور افراد کا قتل ہوا لیکن حکومت نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف تشدد بڑھتا جارہاہےاور برسراقتدار افراد یاتو آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں یا پھر ان وارداتوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ حدتو تب ہوجاتی ہے جب عدالتوں کی بات بھی نظر انداز کردی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد پر ۱۱؍ نکاتی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ اس میں صاف کہا گیا تھا کہ ریاستی حکومتیں اور پولیس اس طرح کے واقعات کو روکنے اور ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کیلئے ذمہ دار ہیں لیکن آج بھی ان ہدایات پر عمل نہیں ہورہاہے۔ حال یہ ہے کہ ہجومی تشدد کو روکنے کے بجائے برسراقتدار افراد آگ میں گھی ڈالنے کا کام کررہے ہیں۔ ان کی زبان سے ایسی باتیں نکلتی ہیں جو نفرت کو اور بڑھاوا دیتی ہیں۔ یہ بد امنی اس حدتک پھیل چکی ہے کہ ہمارے ملک کی سیکولر پہچان پر بھی سنگین سوال اٹھنے لگے ہیں۔
سال کی شروعات میں ہی کئی ریاستوں میں دکانداروں کو اپنے نام بورڈ پر لگانے کیلئے مجبور کیا گیا۔ اسے صحت اور سلامتی سے متعلق قوانین کا حصہ بتایا گیا مگر اصل منشا کچھ اور تھی۔ یہ قدم مسلمان دکانداروں کو نشانہ بنا کر اٹھایا گیا تھاتاکہ ان کی روزی روٹی ختم کی جاسکے۔ پچھلے ہفتے مراد آباد میں ایک مسلم ڈاکٹر کو ہندوؤں کی اکثریت والی سوسائٹی میں گھر خریدنے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ اس کی وجہ سے علاقے کے امن وامان کو خطرہ ہوگا۔ اب آپ ہی بتایئے کہ کیا یہ وجہ صحیح ہے؟ جائز ہے؟ اصل میں یہ چھوٹے بڑے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینےوالے بیانات اور پالیسیاں ہمارے سماج کو اندر سے کھوکھلا کررہی ہیں۔ یوپی میں یتی نرسمہانند نےبے حد گھٹیا بیان دیا لیکن سرکار ان بیانات پر کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے۔ نفرت انگیز تقریریں نہ صرف عام آدمی کے ذہن کو آلودہ کرتی ہیںبلکہ ان سے اب آئینی عہدوں پر فائز افراد بھی متاثر ہونےلگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج نے ایسے بیان دیئے جن کا نوٹس خود سپریم کورٹ کو لینا پڑا۔ آئین کے آرٹیکل ۲۹؍ اور ۳۰؍ میں اقلیتوں کو ان کے مذہبی اور تقافتی حقوق دیئے گئے ہیںتاکہ وہ اپنی شناخت کو قائم رکھ سکیں اور اپنے اداروں کو چلاسکیں لیکن آج ان حقوق پر ہر طرف سےڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔ وقف جیسے بل لا کر مذہبی حقوق کو چھیننے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ آج اقلیتوں کو آئین کے ذریعہ دیئے گئے بنیادی حقوق کو حاصل کرنے کیلئے بھی لمبی قانونی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ ایسے کئی معاملات میں عدالتوں نے انصاف دے کر آئین کی حفاظت کی ہے مگر عدالتی کارروائی میں جو وقت لگتا ہےاس کی وجہ سے ملک کے سماجی تانے بانے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر الہ آباد ہائی کورٹ نے ۲۰۰۴ء کے مدرسہ ایکٹ کو رَدکردیاتھا جس سے مدرسوں کے نظام پر سوال اٹھے۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو پلٹ کردیا اور قانون کو جائز ٹھہرایا مگر اس میں جو وقت لگا اس نے اقلیتوں کو بے چینی اور جدوجہدمیں مبتلا کیا۔ اسی کڑی میں پلیسیز آف ورشپ ایکٹ بھی آتا ہے۔ اور بھی ایسے کئی حقوق ہیں جنہیں حاصل کرنے کیلئے طویل عدالتی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔یہ صورتحال نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کے حصول میں رکاوٹ ہے بلکہ ’’دیر سے ملنے والا انصاف ناانصافی کے مترادف ہے‘‘جیسی کہاوت کو صحیح بھی ثابت کرتا ہے ۔ میں ا س ایوان سے دنیا بھر کی اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانا چاہتی ہوں۔ خاص طور سے ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ جو ہورہا ہےوہ دل کو شدید چوٹ پہنچانےوالا ہے۔ان کی جان مال کی پامالی ہورہی ہے۔ بنگلہ دیش ہو یا ہندوستان ہو یا کوئی اور ملک ہو۔ اقلیتوں کا تحفظ، ان کی عزت واحترام اوران کے حقوق کی حفاظت سرکار کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے۔ یہ وقت کی پکار ہے کہ ہم مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی شخص کو اس کی مذہبی شناخت کی وجہ سے ڈر کر جینے پر مجبور نہ ہونا پڑا۔ جہاں حق چھینےجاتے ہیں وہاں امن کھو جاتاہے، یہ بات ہر حکومت کوسمجھنی چاہئے۔ اگر ہم اپنے آئین کا احترام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نفرت اور بھید بھاؤ کو ختم کرنا ہوگا اور یہ د کھانا ہوگا کہ یہ ملک ہر طبقے، ہر سماج، ہر ذات اور ہر مذہب کے ماننے والوں کا ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک آئین کی روح تڑپتی رہے گی۔ میں اس شعر کے ساتھ اپنی بات کو ختم کروں گی کہ ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر=وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔‘‘