دنیا کی سب سے بڑی کارساز کمپنی نے پروڈکشن کم کر دیا، حالانکہ کورونا کے دوران بھی نمبر ایک کی پوزیشن برقرار رکھی، چپس کی کمی ۲۰۲۲ء کے دوران بھی جاری رہنے کا خدشہ
EPAPER
Updated: February 15, 2022, 11:51 AM IST | Agency | Tokyo
دنیا کی سب سے بڑی کارساز کمپنی نے پروڈکشن کم کر دیا، حالانکہ کورونا کے دوران بھی نمبر ایک کی پوزیشن برقرار رکھی، چپس کی کمی ۲۰۲۲ء کے دوران بھی جاری رہنے کا خدشہ
جاپانی موٹر کار کمپنی ٹویوٹا نے ۲۰۲۱ء کی آخری سہ ماہی میں اپنے منافع میں ۲۱؍ فیصد کی کمی دیکھی ہے کیونکہ عالمی سطح پر سیمی کنڈکٹر چپس کی کمی کی وجہ سے اس کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔کمپنی نے کہا ہے کہ اس کا تیسری سہ ماہی کا آپریٹنگ منا فع ۷۸۴ء۴؍ ارب ین یعنی تقریباً ۶ء۸؍ ارب ڈالر رہا ہے۔دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کاروںکی کمپنی نے بھی اپنے سالانہ پیداواری ہدف کو ۵؍ لاکھ گاڑیاں کم کر کے ۵ء۸؍ ملین کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیا بھر کے مینوفیکچرر کاروں کیلئے درکار مائیکرو پروسیسرز تلاش کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ٹویوٹا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ’’ہم گزشتہ موسم گرما سے پیداواری حجم میں کمی کے سلسلے کی وجہ سے اپنے صارفین کو ہونے والی زحمت کیلئے معذرت خواہ ہیں۔ ہم جلد از جلد مکمل پیداوار بحال کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔‘‘ستمبر میں، ٹویوٹا نے چپس کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں گاڑیوں کی پیداوار میں ۴۰؍ فیصد کمی کی تھی۔کمپنی نے حالیہ مہینوں میں متعدد پروڈکشن پلانٹس پر معطلی کا بھی اعلان کیا ہے کیونکہ کورونا وائرس نے سپلائی چین کو متاثر کیا ہے۔ووکس ویگن، جنرل موٹرز، فورڈ، نسان، ڈیملر، بی ایم ڈبلیو اور رینالٹ سمیت حریف کار سازوں نے بھی حالیہ مہینوں میں گاڑیوں کی پیداوار میں کمی کی ہے۔اسینو آٹو انسائٹس کے مینیجنگ ڈائریکٹر ٹو لی نے بتایا کہ ’’چِپس کی کمی کی وجہ سے ٹویوٹا پر ۲۰۲۲ء میں بھی مشکلات آئیں گی لیکن وہ ممکنہ طور پر کسی بھی چیلنج کو اپنے ساتھیوں کے مقابلے بہتر طریقے سے سنبھالیں گے۔‘‘میرا خیال ہے کہ وہ جی ایم اور وی ڈبلیو سے بہتر انداز میں اس کمی کو سنبھالنے کو ایک موقعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسلئےٹویوٹا کا سال اپنے حریفوں کے مقابلے میں مضبوط رہے گا۔پچھلے مہینے، ٹویوٹا نے دنیا کی سب سے بڑی کار سازکمپنی کے طور پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا کیونکہ اس نے قریبی حریف وی ڈبلیو پر اپنی برتری کو وسیع کیا۔اس کے علاوہ جنوری میں ٹویوٹا نے جاپان میں صارفین کو خبردار کیا کہ انہیں اپنی نئی لینڈ کروزر کی ڈیلیوری کیلئے چار سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔کمپنی نے کہا کہ تاخیر کا تعلق عالمی چپس کی کمی یا سپلائی چین کے بحران سے نہیں ہے۔ تاہم، اس نے اس تاخیر کی وجہ بتانے سے انکار کر دیا۔ ۱۹۵۱ءمیں لانچ کی گئی، لینڈ کروزر ٹویوٹا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑی ہے، جس کی کل فروخت گزشتہ سال اگست تک ۱۰ء۶؍ ملین ہوئی۔اس وبا نے صارفین الیکٹرانکس اور طبی آلات کی مانگ میں اضافہ دیکھا، جن میں کمپیوٹر چپس شامل ہیں۔اس کا مطلب یہ تھا کہ کار سازوں کیلئے کافی سیمی کنڈکٹر باقی نہیں تھے۔پچھلے سال کے اوائل میں جب عالمی چپس کی کمی پہلی بار موٹر انڈسٹری پر پڑی تو ٹویوٹا اپنے حریفوں کے مقابلے نسبتاً اچھی حالت میں تھی۔ ٹویوٹا نے ایک دہائی قبل زلزلے اور سونامی کے بعد بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کیا تھا۔اس وقت، چپس بنانے والی فیکٹریوں کو نقصان پہنچا تھا، جس کا مطلب ٹویوٹا اور دیگر کار سازوں کیلئے پیداوار میں بڑی رکاوٹ تھی۔ٹویوٹا نے اپنی سپلائی چین کا جائزہ لیا اور ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ اس کا مطلب تھا کہ اس میں مہینوں تک چلنے کیلئے درکار سیمی کنڈکٹر لے لئے تھے۔لیکن جیسے جیسے وباطویل ہوتی گئی لیا، وہ اسٹاک کم ہوتے گئے اور کمپنی کو اب خدشہ ہے کہ وہ اپنے عالمی پیداواری ہدف سے محروم ہوجائے گی۔اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چپس کی کمی اگلے سال تک برقرار رہ سکتی ہے۔اگرچہ کچھ اچھی خبر ہے۔ حالیہ مہینوں میں، خاص طور پر موٹر انڈسٹری کیلئے چپس بنانے کیلئے پلانٹ میں بڑی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ وبا سے پہلے اس سرمایہ کاروں کو ترجیح کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔سیمی کنڈکٹر کی کمی نے مارکیٹ کے سائز کو نمایاں کرنے کے بعد چپ میکرس اب آٹو سیکٹر میں گاہکوں کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، خاص طور پر جب الیکٹرک وہیکل (ای وی) کی صنعت میں مزید جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔