آج ۲۵؍ دسمبر ہے جوہم سب کے لئے انتہائی خصوصی دن ہے۔ ہمارا ملک ہمارے ہردل عزیز وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جی کی پیدائش کی ۱۰۰؍ویں سالگرہ منا رہا ہے۔
EPAPER
Updated: December 25, 2024, 1:58 PM IST | New Delhi
آج ۲۵؍ دسمبر ہے جوہم سب کے لئے انتہائی خصوصی دن ہے۔ ہمارا ملک ہمارے ہردل عزیز وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جی کی پیدائش کی ۱۰۰؍ویں سالگرہ منا رہا ہے۔
آج ۲۵؍ دسمبر ہے جوہم سب کے لئے انتہائی خصوصی دن ہے۔ ہمارا ملک ہمارے ہردل عزیز وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جی کی پیدائش کی ۱۰۰؍ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ وہ ایک سیاستداں اور دانشور کے طور پر جید شخصیت کے حامل تھے اور اب بھی بے شمار لوگوں کو ترغیب دے رہے ہیں۔ہمارا ملک ہمیشہ اٹل جی کا ممنون رہے گا کیونکہ انہوں نے ۲۱؍ویں صدی کے بھارت کی تعمیر میں معمار کا کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے ۱۹۹۸ء میں ملک کے وزیر اعظم کے طور پر عہدہ سنبھالا اور سیاسی عدم استحکام کی ایک مدت کا سامنا کیا۔ تقریباً ۹؍ برسوں میں ہم نے لوک سبھا کے چار انتخابات کا انعقاد ملاحظہ کیا تھا۔ بھارت کے عوام بے چین ہو رہے تھے اور حکومت کی جانب سے کی جانے والی بہم رسانی کو لے کر بھی پس و پیش میں مبتلا تھے۔ یہ اٹل جی ہی تھے جنہوں نے ایک مؤثر حکمرانی فراہم کرکے اس مدوجزر کا خاتمہ کیا۔ وہ کسی بڑے اورخوشحال گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے عام شہری کی طرح مشکلات کا سامنا کیا تھا اور وہ مؤثر حکمرانی کی تغیر پذیر قوت سے واقف تھے۔
ہمارے ارد گرد متعدد شعبوں میں ہم اٹل جی کی قیادت کے طویل المدت اثرات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ان کے عہد میں اطلاعاتی ٹکنالوجی ، ٹیلی مواصلات اور مواصلات کی دنیا میں زبردست ترقی رونما ہوئی۔ وہ ہم جیسے ملک کے لئے ایک بے حد اہم شخصیت تھے کیونکہ یہ ملک ایک زبردست فعال ’یووا شکتی‘ کا حامل ہے۔ اٹل جی کے تحت این ڈی اے حکومت نے ٹکنالوجی کو عام شہریوں تک لائق رسائی بنانے کے لئے پہلی سنجیدہ کوشش انجام دی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو مضبوط بنانے میں ان کی دوراندیشی بھی کارفرما تھی۔ یہاں تک کہ آج بھی بیشتر افراد’ سنہری چورَستے‘ پروجیکٹ کو یاد کرتے ہیں جس نے بھارت کے طول و عرض کو مربوط کر دیا ہے۔ مساویانہ طور پر قابل ذکر واجپئی حکومت کی وہ کوششیں ہیں جن کے تحت مقامی کنکٹی وٹی کے ساتھ ساتھ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا جیسی پہل کے ذریعہ ک رابطے میں اضافہ ہوا۔ اسی طریقے سے ان کی حکومت نے دہلی میٹرو کے سلسلے میں پورے زور و شور سے کام کرکے میٹرو رابطے کو تقویت پہنچائی۔ یہ آج بھی ایک عالمی درجے کے بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹ کا نمونہ ہے۔ اس طرح واجپئی حکومت نے نہ صرف اقتصادی نمو کو فروغ دیا بلکہ دور دراز واقع خطوں کو بھی قریب تر لائی اور اتحا و سالمیت کو پروان چڑھایا۔
جب سماجی شعبے کی بات ہوتی ہے تو سرو شکشا ابھیان جیسی پہل اس پہلو کو نمایاں کرتی ہے کہ کس طرح اٹل جی ایک ایسے بھارت کی تعمیر کے خواہاں تھے جہاں جدید تعلیم پورے ملک میں عوام کے لئے قابل رسائی ہو، خصوصاً ناداروں اور حاشیے پر زندگی بسر کرنے والے طبقات کے لئے ایسا کرنا آسان ہو۔ اس کے ساتھ ہی ان کی حکومت نے ایسی متعدد اقتصادی اصلاحات کے معاملے میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا جس نے اقتصادی فلسفے پر عمل کرنے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس سے بھارت کی اقتصادی ترقی کا راستہ ہموار ہوا۔
واجپئی جی کی قیادت کا ایک دلچسپ نمونہ ۱۹۹۸ء کے موسم گرما میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی حکومت نے حال ہی میں اقتدار سنبھالا تھا۔
۱۱؍ مئی۱۹۹۸ء کو بھارت نے پوکھرن ٹیسٹ کا اہتمام کیا جسے آپریشن شکتی کا نام دیا گیا۔ ان مشقوں نے بھارت کی سائنٹفک برادری کی قوت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ پوری دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بھارت نے ایسے ٹیسٹ انجام دیئے تھے کہ جس سے واضح طور پر اس کے جاہ و جلال کا اظہار ہوتا تھا۔ کوئی بھی عام رہنما شاید پیچھے ہٹ جاتا، تاہم اٹل جی کا خمیر مختلف تھا اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ بھارت مضبوطی سے پرعزم رہ کر اپنی جگہ کھڑا رہا اور حکومت نے دو دنوں کے بعد ۱۳؍مئی کو مزید دو ٹیسٹ انجام د ئیے۔ اگر ۱۱؍تاریخ کو کیا گیا ٹیسٹ سائنٹفک ہنرمندی کا اظہار تھاتو دو دن بعد کئےگئے ٹیسٹ نے حقیقی قیادت کا پہلو بھی اجاگر کیا۔ پوری دنیا کو یہ پیغام گیا کہ وہ دن لد گئے جب بھارت دھمکیوں یا دباؤ سے پیچھے ہٹ جایا کرتا تھا۔ بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنے کے باوجود واجپئی جی کی این ڈی اے حکومت اپنی جگہ مستحکم رہی۔ اس نے اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لئے بھارت کے حق کو بلیغانہ انداز میں پیش کیا۔ ساتھ ہی ساتھ امن عالم کا مضبوط ترین علمبردار بھی بنا رہا۔اٹل جی بھارتی جمہوریت کی اچھی تفہیم رکھتے تھے اور اسے مضبوط تر بنانے کی ضرورت کا بھی ادراک رکھتے تھے۔ اٹل جی نے این ڈی اے کی تخلیق کی بھی قیادت کی، جس نے بھارتی سیاست میں اشتراک کی نئی اصطلاح پیش کی، وہ عوام الناس کو ایک ساتھ لائے اور این ڈی اے کو ترقی کی ایک قوت، قومی پیش رفت اور علاقائی اولوالعزمی کا مرقع بنا دیا۔ ان کی پارلیمانی دانشوری، ان کے سیاسی سفر میں ظاہر ہوتی رہی۔ وہ ایک ایسی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے جس کے معدودے چند رکن پارلیمان تھے۔ تاہم ان کے الفاظ اس وقت تمام تر لحاظ سے طاقتور کانگریس پارٹی کو ہلا دینے کے لئے کافی ہوتے تھے۔ بطور وزیر اعظم، انہوں نے حزب اختلاف کی تنقید کو اسلوب اور ٹھوس باتوں کے ذریعہ بے اثر ثابت کرکے دکھایا۔ ان کا پورا کریئر بیشتر طور پر حزب اختلاف کی نشست پر گزرا تھا تاہم کسی کے خلاف کبھی کوئی تلخی کے ثبوت نہیں ملتے۔ اگرچہ کانگریس انہیں ایک غدار کہہ کر بہت نیچے تک چلی گئی تھی۔
وہ موقع پرستی کے ذرائع استعمال کرکے اقتدار سے چمٹے رہنے کے بھی قائل نہیں تھے۔ انہوں نے حزب مخالف کے اراکین کو اپنی طرف ملانے اور گندی سیاست کے راستے پر چلنے کے بجائے۱۹۹۶ء میں استعفیٰ دینا بہتر سمجھا۔۱۹۹۹ء میں ان کی حکومت صرف ایک ووٹ سے گر گئی تھی۔ بہت سے لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ رونما ہونے والی غیر اخلاقی سیاست کے خلاف چنوتی پیش کریں تاہم انہوں نے قانون و قواعد پر چلنے کو ترجیح دی۔ آخرکار، وہ عوام کی جانب سے زبردست اکثریتی اتفاق رائے حاصل کرکے اقتدار میں واپس آئے۔جب ہمارے آئین کے تحفظ کے تئیں ان کی عہدبندگی کی بات آتی ہے تو اٹل جی وہاں بھی جید شخصیت کے عہدے پر فائز نظر آتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی کی شہادت سے ازحد متاثر تھے۔ کئی برسوں کے بعد وہ ایمرجنسی کے خلاف چلائی جانے والی ایک تحریک کے ستون بنے۔ ایمرجنسی کے خاتمے پر ۱۹۷۷ء کے بعد ہوئے انتخابات میں انہوں نے اپنی پارٹی (جن سنگھ) کو جنتا پارٹی میں شامل کرنا قبول کیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ ان کے لئے اور دوسروں کے لئے ایک تکلیف دہ فیصلہ رہا ہوگا ۔ تاہم آئین کا تحفظ ان کی نظر میں سب سے اہم بات تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے اندر بھارتی ثقافت کتنی گہرائی سے اپنی جڑیں جمائے ہوئے تھی۔ بھارت کے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے پر وہ پہلے بھارتی قائد تھے جنہوں نے اقوام متحدہ میں ہندی میں خطاب کیا۔ ان کا یہی ایک عمل بھارتی ورثے اور شناخت کے سلسلے میں ان کے زبردست احساس تفاخر کا مظہر ہے، انہوں نے اقوام عالم پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کئے ہیں۔