امریکی صدر نے ہفتے بھر میں تیسری بار اپنی تجویز پر زور دیا،کہا کہ قاہرہ اور عمان کو اس کیلئے راضی ہونا پڑےگا، دونوں ملکوں کیلئے ’’بہت کچھ کرنے ‘‘ کا حوالہ دیکر احسان جتایا۔
EPAPER
Updated: February 01, 2025, 10:25 AM IST | Washington
امریکی صدر نے ہفتے بھر میں تیسری بار اپنی تجویز پر زور دیا،کہا کہ قاہرہ اور عمان کو اس کیلئے راضی ہونا پڑےگا، دونوں ملکوں کیلئے ’’بہت کچھ کرنے ‘‘ کا حوالہ دیکر احسان جتایا۔
غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کے بعد اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کی اپنی ضد پر اَڑ گئے ہیں۔ انہوں نے غزہ کو صاف کرنے کے نام پر اہل غزہ کو مصر اور اُردن میں آباد کرنےکی اپنی شرانگیز تجویز جمعرات کو ہفتے بھر میں تیسری بار دہرائی ہے ۔ اب کی بار زیادہ زور دے کر انہوں نے کہا ہے کہ اُردن اور مصرکو اس کیلئے راضی ہونا پڑےگا کیوں کہ امریکہ ان کیلئے بہت کچھ کرتا ہے۔ اردن اور مصر صاف طور پر اس سے انکار کرچکے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے فلسطینیوں کو غزہ میں رہنے دینے پر زور دیا ہے۔ وہ اسرائیل کے اب تک کے طرز عمل کا حوالہ دیتے ہوئے نشاندہی کر چکے ہیں کہ سیکوریٹی کے نام پر عارضی طورپر دیگر علاقوں میں منتقل کئے جانےوالے فلسطینی کبھی اپنی سرزمین پر نہیں لوٹ سکیں گے۔ اُردن میں پہلے ہی ۲۳؍ لاکھ فلسطینی غریب الوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
نیتن یاہو کے دورہ سے قبل ٹرمپ نے اپنی تجویز دہرائی
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے واشنگٹن دورہ سے ۴؍ دن قبل اپنے اووَل آفس میں امریکی وزیراعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردن اور مصر کو غزہ سے نکالے گئے فلسطینیوں کو اپنے یہاں بسانا ہوگا۔ یہ اشارہ دیتے ہوئے کہ وہ ایسا کروائیں گے، ٹرمپ نے پہلے تو دوبار کہا کہ ’’وہ ایسا کریں گے۔‘‘اس کے بعد دھمکی آمیز لہجہ استعمال کرتے ہوئے انہوں نے رپورٹر کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’آپ یہ سمجھ لیجئے کہ انہیں یہ کرنا ہی ہے۔ہم ان کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں اس لئے انہیں بھی یہ کرنا پڑےگا۔‘‘ واضح رہے کہ نامہ نگار نے اس ضمن میں اردن کے شاہ عبداللہ اور مصر کے السیسی کے انکار کے حوالے سے ٹرمپ سے سوال کیاتھا۔ ان سے رپورٹرز نے کہا تھا کہ مصر اور اردن نے تو غزہ کے عوام کو اپنے ہاں بسانے سے انکار کر دیا ہے تو کیا اب ان پر دباؤ میں ڈالنے کیلئے ` ٹیرف(اُن کی اشیاء پر محصول میں اضافہ) ` کا حربہ استعمال کیا جائے گا؟جواب میں صدر ٹرمپ نے بے ساختہ کہا `کہ وہ ایسا کرنے جارہے ہیں، کیونکہ ہم نے بھی ان ملکوں کیلئےبہت کچھ کیا ہے۔
ٹرمپ نے یہ تجویز اس تاثر کے ساتھ پیش کی تھی کہ انہیں اہل غزہ سے ہمدردی ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ وہ پرامن ماحول میں رہیں تاہم فلسطینیوں اور عرب ممالک نے اسے بجا طور پر ان کی ایک اور ’’جبری منتقلی‘‘ کی سازش قرار دیا ہے۔
کیا ٹرمپ نے منصوبہ بندی کرلی ہے؟
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بار بارغزہ کے شہریوں کو اُردن اور مصر منتقل کرنے پر اصرار کو ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ قراردیا جارہاہے۔ حالات پر نظررکھنے والوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اندر خانہ اس حوالے سے منصوبہ بنا چکے ہیں۔ جمعرات کی شام وہائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا کہ قاہرہ اور عمان کے فیصلہ کن انکار کے باوجود وہ تباہ شدہ غزہ کے لوگوں کو وصول کرنا قبول کریں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خیال پر امریکی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان شاید حال ہی میں بات ہوئی تھی۔ٹرمپ کے بیانات کی بازگشت سے قبل ان کے داماد جیرڈ کشنر نے گزشتہ سال فروری میں ایسا ہی ایک بیان دیا تھا۔ انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ اگر غزہ کو شہریوں سے خالی کر دیا گیا تو وہاں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے کیونکہ اس کا محل وقوع اس کے طویل سمندری پٹی بہت دلکش ہے، جبکہ اسرائیلی سیاسی ذرائع نے ۲؍روز قبل اس بات کی تصدیق کی تھی کہ امریکی صدر کے بیانات محض زبان کا پھسلنا نہیں ہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں جس پر وہائٹ ہاؤس اور امریکی محکمۂ خارجہ میں سنجیدگی سے بحث ہو رہی ہے۔
سازش میں اسرائیل بھی شامل
اسرائیل کے چینل۱۲؍ کے سیاسی مبصر امیت سیگل جن کے وزیر اعظم نتن یاہو کے دفتر اور دائیں بازو کے دیگر عہدیداروں سے قریبی تعلقات ہیں نے کہا کہ سینئر اسرائیلی حکام نے ان کے خیالات کے بارے میں معلومات کی تصدیق کی ہے۔ ان عہدیداروں نے کہا ہے کہ’’ غزہ سے لوگوں کی منتقلی کا منصوبہ ہے۔ ہم انہیں عارضی یا مستقل طورپر اردن اور مصر منتقل کرسکتے ہیں۔‘‘