تلنگانہ کے ناگرکرنول میں ۲۲؍ فروری کو ایس ایل بی سی ٹنل کا ایک حصہ منہدم ہوا تھا ،بچاؤ کارروائی میں کیرالا سے سراغ رساںکتوںکی
مدد لی جارہی ہے، ا ن کی مدد سے ہی لاش کا پتہ لگا،دیگر ۷؍ افراد کی تلاش جاری لیکن ان کے بھی زندہ بچنے کے امکانات نہ کے برابر ہیں۔
بچاؤکارکنان اور حکام آپریشن کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی
اتوار کو تلنگانہ سرنگ حادثے کے ۱۶؍ ویں دن ریسکیو ٹیم کو پہلی لاش ملی۔ لاش کو نکالنے کیلئے مشین سے کٹنگ کا کام جاری ہے۔ گزشتہ روز سونگھنے والے کتوں کو سرنگ میں لے جایا گیا تھا۔ ریسکیو افسر کا کہنا تھا کہ مشین میں پھنسی لاش کے صرف ہاتھ ہی نظر آرہے تھے۔ گزشتہ روز ریاست کے وزیر آبپاشی اتم کمار ریڈی نے کہا تھا کہ سراغ رساں کتوں نے ایک خاص جگہ پر تیز بو محسوس کی اور معلوم ہوا ہے کہ وہاں تین افراد موجود ہیں جبکہ ایک لاش کا پتہ چلا، دیگر۷؍افراد کی تلاش جاری ہے۔ مشینوں کے ذریعےملبے کو ہٹایا جا رہا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ لاش اسی جگہ سے ملی جہاں دیگر۳؍ افراد کی موجودگی کا پتہ چلا ہے یا کسی اور جگہ سے ملی۔ امدادی کاموں میں تیزی لانے کے لیے روبوٹ بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ۵۲۵؍بچاؤ کارکنان پھنسے ہوئے مزدوروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ ریسکیو آپریشن میں کیرالا کے خصوصی سونگھنے والے کتوں کی مدد لی جا رہی ہے۔
واضح رہےکہ یہ حادثہ ۲۲؍ فروری کو ہوا تھا۔ ریاست کے ناگرکرنول میں سری سیلم لیفٹ بینک کنال (ایس ایل بی سی)سرنگ کا ایک حصہ۲۲؍ فروری کو منہدم ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے اندر کام کرنے والے۸؍مزدور پھنس گئے۔ ریاستی حکومت نے کہا تھا کہ ان کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن ہم ہر ممکن کوشش کریں گے۔
۵؍سال پہلے وارننگ دی گئی تھی، کوئی کارروائی نہیں کی گئی
۲۰۲۰ء میں امبرگ ٹیک اے جی نامی کمپنی نے سرنگ کا سروے کیا تھا۔ کمپنی نے سرنگ میں کچھ فالٹ زونز اور کمزور چٹانوں کی وجہ سے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ سروے رپورٹ سرنگ بنانے والی کمپنی جے پرکاش ایسوسی ایٹس لمیٹڈ کو بھی دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ۱۴؍ کلومیٹر طویل سرنگ کے ۱۳ء۸۸؍کلومیٹر سے۱۳ء۹۱؍ کلومیٹر تک کی چٹانیں کمزور تھیں۔ یہ حصہ پانی سے بھی بھرا ہوا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کا بھی خطرہ ہے۔ ریسکیو ورکرز کے مطابق رپورٹ میں جس حصے کو خطرناک قرار دیا گیا تھا وہی منہدم ہوا۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ریاستی حکومت کے محکمہ آبپاشی کو اس کا علم تھا یا نہیں۔ محکمہ آبپاشی کے ایک اہلکار نے کہا کہ انہیں ایسی کسی رپورٹ کا علم نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق ٹنل میں کام کرنے والے کچھ مزدور حادثے کے بعد خوف کے باعث اپنا کام چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ایک سینئر سرکاری اہلکار نے اس پروجیکٹ پر۸۰۰؍ مزدورکام کر رہے ہیں۔
مزدور کام چھوڑ کرجا رہے ہیں !
۸۰۰؍ مزدوروں میں سے۳۰۰؍مقامی ہیں اور باقی جھارکھنڈ، ادیشہ اور اتر پردیش سے ہیں۔ افسر نے یہ بھی کہا کہ شروع میں کارکنوں میں خوف ضرور تھا تاہم کمپنی نے ان کے لیے رہائشی کیمپ بنائے ہیں۔ کچھ لوگ واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہےکہ تمام مزدور واپس چلے گئے ہیں۔