• Tue, 24 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ میں ۲؍ ایٹم بم جتنا بارود استعمال کیا گیا

Updated: March 27, 2024, 10:44 PM IST | Geneva

اقوام متحدہ نے اپنے نمائندۂ خصوصی برائے فلسطین کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا ، غزہ میں اسرائیل اب تک ۲۵؍ ہزار ٹن بارود استعمال کرچکا ہے ،خطہ کی صورتحال کوانسانی حقوق کونسل کےماہرین نے نسل کشی سے تعبیر کیا، اس کے باوجود اسرائیلی بمباری جاری ، اب مکانات نشانے پر

Buildings and houses in Gaza have been turned into piles of rubble due to Israeli bombardment
اسرائیلی بمباری کے سبب غزہ کی عمارتیں اور مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے ہیں

اقوام متحدہ  نے اسرائیلی ہٹ دھرمی ، شیطنت اور ظلم کی روش کا ایک اور پردہ فاش کرتے ہوئے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو تباہ کرنے کے لئے دو  ایٹم بموں کے برابر بارود استعمال کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی برائے فلسطین کی رپورٹ میں  یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ پر اب تک ۲۵؍ ہزار ٹن بارود استعمال کرچکا ہے جو دو جوہری بموں کے برابرہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسیز نےاسپتالوں، زرعی اراضی، تعلیمی اداروں اور فلسطینیوں کے گھروں کو اپنی وحشیانہ بمباری کے ذریعے مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں ۷۵؍ہزار  کے قریب فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں جبکہ سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی ہے کہ اسرائیلی فوج گرفتار شدہ فلسطینیوں کو بدترین انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنا رہی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیل یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ غزہ میں مارے جانے والے مرد حماس سے تعلق رکھتے تھے۔  اس رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی ہے۔ اسرائیل نے نسل کشی کی کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ جن میں سے کارروائی کے طور پر گرفتار شدہ فلسطینیوں کو شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ان  کے خلاف جان بوجھ کر ایسے اقدامات کئےگئے جن سے   بچوں کی پیدائش  رُک جائے۔ رپورٹ  میں یہ بات بھی درج ہے کہ غزہ میں خوراک کی کمی اور غذائی قلت سے یومیہ ۱۰؍بچے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ 
  غزہ کی صورتحال پراقوم امتحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ماہر فرانسیسکا البانیز  نےاپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے پانچ ماہ میں اس علاقے کو پوری طرح نیست و نابودکر دیا ہے۔ یہ تباہی فلسطینیوں کو منظم طور سے ختم کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں مزید ہلاکتوں کو روکنے کے  لئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور اسرائیل کو مزید ہتھیار فراہم کرنے  سے روکیں۔ جب تک اسرائیل پر اسلحہ خریدنے کی پابندی نہیں لگائی جائے گی وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ انہوں نے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔  انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جو لوگ بمباری اور حملوں میں بچ گئے ہیں ان کی زندگیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ 
 رپورٹ میں غزہ پر حملے کے دوران اسرائیلی اقدامات کے تجزیے، اس کے اعلیٰ سطحی حکام کے بیانات اور ان کے نتیجے میں اسرائیلی فوجیوں کے طرزعمل کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی کارروائیاں نسل کشی کی حدود کو چھو رہی ہیں۔ اسرائیلی سماج  میں فلسطینیوں سے نفرت پر مبنی بیانات   نشر کئے جارہے ہیںکہ غزہ کی تمام فلسطینی آبادی اسرائیل کی دشمن ہے اس لئے اسے بزور طاقت ختم کر دینا چا ہئے۔ رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی فو جی قیادت اور فوجیوں نے حملوں کے دوران  تمام  بین الاقوامی اصولوں کو جان بوجھ کر پامال کیا۔  رپورٹ کے مطابق اب تک اسرائیل نے ۳۲؍ ہزار  سے زائد فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا ہے جن میں بچوں کی تعداد ۱۳؍ ہزار سے زیادہ ہے۔ اندازہ کے مطابق تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبنے سے ۱۲؍ ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔  علاقے میں متواتر بمباری اور زمینی حملوں میں زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد ۷۵؍ ہزار کے قریب ہے۔  ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں اب عمر بھر کیلئےمعذوری کا سامنا ہے۔  ہزاروں خاندانوں نے اپنے کسی ایک رکن کو کھو دیا ہے اور بہت سے گھرانے پوری طرح ختم ہو گئے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے ہلاک ہونے والے عزیزوں کو دفنا نہیں سکے کیونکہ انہیں جان بچانے کے لئے ان کی لاشیں گھروں میں، سڑکوں پر یا ملبے پر ہی چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ ان حالات اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد منظور ہونے کے باوجود اسرائیلی حملے جاری ہے۔ اب صہیونی فوج غزہ میں باقی رہ جانے والے مکانات پر بمباری کررہی ہے جس میں ۷۶؍ ہلاکتوں کی اطلاع ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے الشفا اسپتال کو گھیر رکھا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK