• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اُدھو کومسلم ووٹ ملے لیکن وہ اپنے ووٹ دوسروں کو ٹرانسفر نہیں کراسکے

Updated: November 23, 2024, 11:51 PM IST | Mumbai

باندرہ مشرق میں مسلم ووٹرس نے ذیشان صدیقی اور بائیکلہ میں فیاض احمد کے بجائے شیوسینا یوبی ٹی کے امیدواروں کاانتخاب کیالیکن سیکولر امیدواروں کو یو بی ٹی کے ووٹ نہیں ملے

Shiv Sena UBT chief Uddhav Thackeray addressing the media after the election results were declared (Photo: PTI)
انتخابی نتائج ظاہر ہونے کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے شیوسینا یو بی ٹی کے سربراہ ادھو ٹھاکرے (تصویر: پی ٹی آئی)

مہاراشٹر میں کانگریس، شرد پوار کی این سی پی اور ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا نے سیاسی طور پر اتحاد تو کرلیا ہے لیکن نظریاتی سطح پر اُن کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہوسکی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اسمبلی الیکشن میں شیوسینا یوبی ٹی کو سیکولر ووٹ تو ملے لیکن اس کے ووٹ دوسری پارٹی کے امیدواروں کو ٹرانسفر نہیں ہوسکے۔یہ بات لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی محسوس کی گئی تھی، جو اسمبلی الیکشن میں پوری طرح سے کھل کر سامنے آگئی ہے۔ 
  باندرہ اور بائیکلہ سے بھیونڈی اور جالنہ تک اسمبلی انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات پوری طرح سے واضح ہوجاتی ہے۔سیٹوں کی تقسیم میں شیوسینا یوبی ٹی کو ۹۰؍ سیٹیں ملی تھیں جن میں سے مجموعی طورپر اس کے۲۰؍ امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ ۵۶؍ اسمبلی حلقوں میں اس کے امیدواروں کو  دوسر ی پوزیشن ملی۔یہ مسلم اور سیکولر ووٹوں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس کے برعکس اس کی اتحادی جماعتوں کو اس کے ووٹ ٹرانسفر نہیں ہوسکے۔ 
 باندرہ مشرق سے گزشتہ ا سمبلی انتخابات میں کانگریس کے امیدوار ذیشان صدیقی جیتے تھے۔ اس مرتبہ وہ اجیت پوار کی پارٹی کے امیدوار تھے جبکہ ’ایم وی اے‘ کی طرف سے یہ سیٹ شیوسینا یو بی ٹی کے حصے میں گئی تھی۔یہاں کے سیکولر اور مسلم ووٹرس نے ذیشان کے بدلے یوبی ٹی کے امیدوار’ورون سردیسائی‘ کاانتخاب کیا۔ ذیشان جو گزشتہ الیکشن میں ۵۷۹۰؍ ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے، اس بار۱۱؍ہزار ۳۶۵؍ ووٹوں سے ہار گئے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال بائیکلہ اسمبلی حلقے میں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے اسمبلی انتخابات میں یہاں سے ایم آئی ایم کے امیدوار کو  بالترتیب ۲۵؍ اور ۳۱؍ ہزار سے زائد ووٹ ملے تھے۔ اس کی وجہ سے ایک بار جیت اور دوسری بار دوسری پوزیشن ملی تھی جبکہ اس مرتبہ بائیکلہ کے سیکولر اور مسلم ووٹرس نے یوبی ٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹنگ کی جس کی وجہ سے منوج جام سوتکر کو جہاں کامیابی ملی، وہیں ایم آئی ایم کے امیدوار فیاض خان کو محض ۵۵۳۱؍ ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔
 اسی فہرست میں مسلمانوں کی خاصی آبادی والی نشستوں پربھنی، جوگیشوری مشرق، کالینا اور ماہم کا بھی شمار کیا جاسکتا ہےجہاںمسلمانوںکی اکثریت نے شیوسینا یوبی ٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیا اور کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح اُن ۵۶؍ سیٹوں پر جہاں یوبی ٹی کے امیدواروں کو دوسری پوزیشن ملی، وہاں پر بھی مسلم ووٹرس کی اکثریت نے واضح طورپر شیوسینا یو بی ٹی ہی کو ووٹ دیا ہے۔ ان میں اندھیری مشرق، کرلا،گوریگاؤں،کلیان مغرب، امبرناتھ، رتنا گیری،پین، میرج، مہاڈ،پال گھر، اورنگ آباد مشرق،اکولہ مشرق، بلڈانہ،جلگاؤں شہر، چوپڑا اور واشم کے نام قابل ذکر ہیں۔
 اس کے برعکس ان تمام حلقوں میں جہاں کانگریس ، این سی پی کے مسلم یا سیکولر امیدوار تھے، شیوسینا یوبی ٹی کے ووٹ ’نہیں‘ کے برابر ملے ہیں۔ ان میں چاندیولی، انوشکتی نگر، میرا بھائندر، بھیونڈی اور جالنہ کے نام بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں۔ چاندیولی سے کانگریس امیدوار عارف نسیم خان کو گزشتہ انتخابات میں محض ۴۰۹؍ ووٹوں کے فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُس وقت شیوسینا بی جے پی کے متحدہ امیدوار دلیپ لانڈے کو ۸۵؍ ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ اس مرتبہ اُدھو کی شیوسینا کی حمایت کے بغیر دلیپ لانڈے کو ایک لاکھ ۲۴؍ ہزار سے زائد ووٹ ملے۔اس کی وجہ سے عارف نسیم خان کی ۲۰؍ ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے شکست ہوگئی۔ اسی طرح بھیونڈی مغرب میں گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے امیدوار مہیش چوگلے کو محض ۵۸؍ ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ اس مرتبہ ۷۰؍ہزار سے زائد ووٹ ملے۔ یہاں پر کانگریس کاامیدوار چوتھی پوزیشن پر رہا۔ اسی طرح جالنہ اسمبلی حلقے میں شیو سینا کے امیدوار ارجن کھوتکر کو ۲۰۱۹ء میں۶۶؍ ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ اس مرتبہ ایک لاکھ ۴؍ ہزار سے زائد ووٹ ملے ہیں۔ کیا بی جے پی اور ایکناتھ شندے کی شیوسینا کے امیدواروں کو اتنے ووٹوں کا ملنا شیوسینا یوبی ٹی کے روایتی رائے دہندگان کی مدد کے بغیر ممکن ہے؟ مطلب صاف ہے کہ کانگریس ، شرد پوار کی این سی پی اور ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کے درمیان اتحاد صرف کاغذ پر ہوا، اس کا اثر زمین پر نہیں دکھائی دیا۔ شیوسینا یوبی ٹی کے لیڈران اگربیانات کے بجائے زمین پر اُترے ہوتے اور اپنے اتحادیوں کی کامیابی کیلئے اپنے روایتی رائے دہندگان کو اعتماد میں لئے ہوتے تو آج نتائج کچھ اورہوتے۔ انتخابات ہوگئے، نتائج بھی آگئے لیکن وقت  ابھی ہاتھ سے نکلا نہیں ہے۔ اگر آج ہی سے اگلے  انتخابات کی حکمت عملی تیار کی گئی اور اس پر ایمانداری سے کام کیا گیا تو آئندہ نتائج بدل بھی سکتے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK