• Mon, 13 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اجین میں مہاکال مندر کوریڈور کے نام پر مسلم بستی کو اُجاڑ دیا گیا، مسجد بھی شہید

Updated: January 13, 2025, 10:46 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi

۲۵۷؍ گھروں پر بلڈوزر چلادیاگیا، مکانوں کوخالی کرنے کیلئے۱۲؍ گھنٹے کا بھی وقت نہیں دیاگیا، نظام الدین کالونی کی جگہ پروَچن ہال اور پارکنگ لاٹ بنے گا۔

Demolition operations have been going on since Saturday morning in Ujjain. Photo: INN
اُجین میں سنیچر کی صبح سے انہدامی کارروائی چل رہی ہے۔ تصویر: آئی این این

اُجین میں انتظامیہ نے ظالمانہ کارروائی کورتے ہوئے مہاکال مندر کوریڈور کی توسیع کےنام پر تکیہ مسجد کو شہید اور  ۲۵۷؍ گھروں  پر بلڈوزر چلادیا۔  نظام الدین کالونی میں یہ انہدامی کارروائی انتہائی سخت پولیس بندوبست میں کی گئی۔ مسلمانوں کو اجاڑ کر حاصل کی جانے والی زمین پر ریاستی حکومت مہاکال مندر کا پروَچن ہال  اور پارکنگ لاٹ بنائےگا۔ 
 انتظامیہ نے شہر قاضی خلیل الرحمان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ تکیہ مسجد کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی لیکن  جب بلڈوزر پہنچا تو پولیس کے غیر معمولی بندوبست میں مسجد کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انتظامیہ کا دعویٰ  ہے کہ انہدامی کارروائی قانون کے مطابق  اور لوگوں کو اعتماد میں لے کر کی گئی  ہے تاہم نمائندہ انقلاب نے جب مقامی  افراد سے فون پر گفتگو کی تو ان کی باتوں  میں خوف جھلک رہاتھا۔ کچھ لوگوں  نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’پوری کارروائی ڈنڈے کے زور پر کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو یہاں سے بے گھر کرنے کے بعد انہیں زمین کا معاوضہ نہیں  دیا گیا بلکہ مکان کی تعمیر کے نام پر معمولی معاوضہ دیا گیا ہے۔‘‘ شہر کے مسلمان خوفزدہ اور ڈرے  ہوئے ہیں ،اس لئے کھل کر بات بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہدامی کارروائی  کیلئے ۲۴؍ گھنٹے کا نوٹس دیکر خانہ پُری کرنے کی کوشش تو کی گئی مگر مذکورہ نوٹس دیئے جانے  کے بعد  ۱۲؍گھنٹے کے اندر اندر بلڈوزر پہنچ گئے۔ قاضی شہر خلیل الرحمان نے نمائندہ انقلاب سے گفتگو میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا۔انہوں نے بتایا کہ نظام الدین کالونی وقف کی زمین ہےجس پر موجودسبھی مکانات مسلمانوں کے ہیں۔گرچہ مہا کال مندر کاریڈور کے نام پر اس پوری کالونی کے مسلمانوں کو بے گھر کیا جارہاہے،لیکن اسی کالونی دیوار سے متصل گنیش کالونی کو ایک کھرونچ تک بھی نہیں آئی کیونکہ یہاں مسلمان آباد نہیں ہیں۔ انہوںنے سوال کیا کہ اگر مہاکال کاریڈور کیلئے جگہ کی ضرورت ہے تو صرف مسلم کالونی اور ان کے مکانات ہی نشانے پر کیوں ہیں؟دیگر برادری کے مکانات اور کالونی کو چھوا تک بھی نہیں جارہاہے۔قاضی شہر اندیشے اور خدشات کے پیش نظر بہت سے باتیں کھل کر بتانے سےقاصر تھے ۔ا نہوںنے بتایا کہ چند ماہ قبل اسی طرح کی کارروائی بیگم باغ کالونی میں بھی کئی گئی اور انہوںنے بڑی جدوجہد کے ساتھ مسلمانوں کو معاوضہ کے طور پر ۷؍ کروڑ کی رقم دلائی۔حالانکہ یہ جگہ بھی بہت بیش قیمتی ہے۔قاضی شہر سے بات چیت سے اندازہ ہوا کہبی جے پی حکومت مسلمانوں کو مہاکال مندر کے آس پاس ہر گز نہیں دیکھنا نہیں چاہتی ہے اور اس کیلئے انہیں کئی بہانوں سے بے گھر کیا جارہاہے اور سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود بے پروا ہو کر بلڈوزر کارروائی کی جارہی ہے۔ 
نظام الدین کالونی میں مکانات مسلمانوں کے ہیں۔میڈیا میں اس بلڈوزر کارروائی کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ بلڈوزر کی جگہ’ پیلے پنجے‘جیسی اصطلاح کا استعمال کرکے یہ دعویٰ کیا جا ر ہاہے کہ یہ کالونی غیر قانونی تھی،دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ یہاں کے مکینوں کو معاوضہ دیا گیا اور اس کے بعد ان سے مکانات خالی کرائے گئے ہیں۔
بلڈوزر کارروائی کے خلاف مقامی لوگوں کے احتجاج کی بھی خبریں ہیں،تاہم یہ کارروائی چونکہ ۲۰۰؍ پولیس اہلکاروں اور درجن بھر بلڈوزر کی مدد سے کرائی جارہی ہے،اس  لئے کارروائی کے خلاف ناراضگی  کے باوجود مسلمانوں میں ڈر اور خوف کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ایک ہندی روزنامہ کےمطابق یہاں کے مکینوں نے انصاف کیلئے  مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن ان کی اپیل مسترد کردی گئی۔اس معاملے میں متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں گھر خالی کرنے کا بھی وقت نہیں دیا گیا۔معاوضہ بھی ۱۰؍گنا کم دیا گیا۔ان کے بچے دوو دن سے بھوکے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو دوسروں کے گھروں پر چھوڑنے کیلئے مجبور ہے۔انہیں رات میں ۸؍بجے نوٹس دیا گیا،اس سے قبل انہیں کچھ نہیں بتایا گیا۔وہ اس مقام پر دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ذرائع نے نمائندہ انقلاب کو یہ بھی بتایا کہ چونکہ مسلمان ایسی ریاستوں میں الگ تھلگ پڑے ہیں ،ایسے میں انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ مدد کیلئے کس کی طرف دیکھیں۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK