• Mon, 21 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اتراکھنڈ کے چمولی سے مسلمانوں کو نکل جانے کا الٹی میٹم

Updated: October 20, 2024, 9:21 AM IST | Dehradun

ہماچل پردیش کی طرح اتراکھنڈ میں بھی مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرستوں کی مہم زوروں پر، ویاپار منڈل کے نام سے جاری کئے گئے الٹی میٹم کے بعد مسلمانوں میں خوف و ہراس، ۳۱؍ دسمبر سے پہلے نہ نکلنے پر سخت کارروائی کی دھمکی، خط سوشل میڈیا پر وائرل،مقامی انتظامیہ نے حیرت انگیز لاعلمی کا اظہار کیا

Taking out a rally in Khansar of Sharapsandchamoli district
شرپسندچمولی ضلع کے خانسر میں ریلی نکالتے ہوئے

 ہماچل پردیش میں مساجد اور مسلمانوں کے خلاف مہم کے درمیان بی جےپی کی حکمرانی والی ریاست اتراکھنڈ میں بھی ایک بار پھر بھگوا عناصر سرگرم  ہوگئے ہیں۔ یہاں تاجروں کی ایک تنطیم نے مسلمانوں کو ۳۱؍ دستمبرتک چمولی سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔اس  کے ساتھ ہی چمولی کے مقامی  ہندوآبادی کو بھی وارننگ دی گئی ہے کہ اگر کوئی مسلمانوں کو کرائے پر مکان دیتا ہےتو اس پر ۱۰؍ ہزار روپے تک کا جرمانہ عائد ہوسکتاہے۔ 
مسلمانوں کو دھمکی ، انتظامیہ لاعلم 
 یہ مسلم خاندان خانسر میں دہائیوں سے آباد ہیں۔ شرپسندوں  نے پہلے خانسر میں ریلی نکالی، اس کے بعد ایک قرار داد پاس کرکےمسلمانوں کو الٹی میٹم دیاکہ وہ ۳۱؍دسمبر تک یہاں سے باہرنکل جائیں ،ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ شر پسندوں نے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر مقررہ تاریخ تک مسلمان یہاں سے نہیں نکلتے تو نہ صرف ان کے خلاف بلکہ انہیں کرایہ پر مکان اور دوکان دینے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائےگی۔ ریلی کے دوران شرپسندوں نے اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔’’ویاپار منڈل‘‘  کے نام سے جاری کئے گئے  اس الٹی میٹم کی کاپی سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہورہی ہے۔تاہم انتظامیہ ایسے کسی الٹی میٹم سے حیرت انگیز لاعلمی کااظہار کیا ہے۔  ایک انگریزی روزنامہ  نے جب  مذکورہ دھمکی کے تعلق سے چمولی کے ایس پی سرویش پنوار سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایسے کسی واقعہ کا علم ہونے سے انکار کیا۔ پنوار نے کہاکہ’’ہم معاملے کی تحقیقات کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو مناسب قانونی کارروائی کریں گے۔‘‘
’’ قانونی کارروائی‘‘کی دھمکی
  ہاتھ سے تحریرکردہ قرار داد میں یہ بھی دھمکی دی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص مسلمانوں کو کرایہ پر مکان یا دوکان نہ دے۔ ایسا کرنے پر مالک مکان کو ۱۰؍ ہزار روپے کا جرمانہ دینا ہوگا۔اس قرار داد پر ویاپار سنگھ مئیتھن کی مہر بھی لگی ہوئی ہے جبکہ کئی لوگوں کے نام اور موبائل نمبر درج ہیں۔
 اسی کے ساتھ خانسر میں مسلمانوں کو پھیری کا کام کرنے   سے بھی روکا گیا ہے اور دھمکی دی گئی ہے کہ اگر کوئی مسلمان پھیری کا کام کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اس پر ۱۰؍ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا اور اس کو سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالانکہ شرپسندوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ کس طرح سے قانونی کارروائی کرسکتے ہیں جبکہ اس طرح کی دھمکی اور الٹی میٹم دینا خود سرار غیرقانونی ہے۔
بھگوا جلوس کے بعد شرپسندی
 دوسری طرف مسلمانوں نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ یہاں کوئی بھی کسی مجرمانہ واقعے میں ملوث نہیں ہے۔ شر پسندوں کی یہ حرکت نہ صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش ہے بلکہ ذاتی کاروباری مفادات کی وجہ سے انہیں  یہاں سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خانسر وادی ۱۱؍ گرام پنچایتوں پر مشتمل ہے۔ ستمبر میںبھی  ہندوتوادی گروپوں نے نند گھاٹ میں مسلمانوں کی دوکانوں پر حملے کے بعدچمولی ضلع کے گوپیشور قصبے میں جلوس نکالا تھا۔ دائیں بازو کے ان گروپ نے باہر سے آنے والے لوگوں کی تصدیق کے نام پر کافی ہنگامہ آرائی کی تھی۔ جان سے مارنے کی دھمکی ملنے کے بعداقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کم از کم۱۰؍ خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے، ان میں بی جےپی کا ایک لیڈر بھی شامل تھا۔
 خیال رہے کہ اتراکھنڈ جہاں بی جےپی کی حکومت ہے، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلمانوں  کے خلاف اس طرح کی نفرت انگیز مہم چھیڑی گئی  ہے۔ وقفے وقفے سے یہاں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ پڑوسی ریاست  ہماچل میں بھی مسلمانوں  کے  خلاف شرپسند عناصر سرگرم ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK