Updated: September 14, 2024, 6:08 PM IST
| New Delhi
۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۰ء کو عمر خالد اور دیگر ۱۱؍ افراد کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ عمر خالد بغیر ضمانت اور مقدمے کے گزشتہ ۴؍ سال سے جیل میں ہیں۔ اس دوران کئی مشہور شخصیات نے ایکس کے ذریعے اپنی آوازیں بلند کیں۔ گزشتہ دن (جمعہ) عمر خالد پر بنائی گئی للت بچانی کی دستاویزی فلم ’’پریزنر نمبر 626710 اِز پریزنٹ‘‘ کانگریس کے جواہر بھون آڈیٹوریم (دہلی) میں دکھائی گئی۔
۲۰۲۰ء دہلی فسادات سے متعلق سازش کے معاملے میں مقدمے کی سماعت کے منتظر حقوق کارکن عمر خالد کی جیل میں چوتھے سال کے موقع پر سیکڑوں صارفین کے گزشتہ دن (جمعہ) سوشل میڈیا پر آواز بلند کی۔ خیال رہے کہ عمر خالد ۱۱؍ دیگر افراد کے ساتھ، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت ایک کیس میں جیل میں ہیں، باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ نے کئی معاملات میں بار بار کہا ہے کہ ’’ضمانت اصول ہے اور جیل ایک استثناء ہے۔‘‘
عمر خالد پر للت بچانی کی دستاویزی فلم ’’ قیدی نمبر ۶۲۶۷۱۰؍ حاضر ہے‘‘ (پریزنر نمبر 626710 اِز پریزنٹ) کو ان کی گرفتاری کی چوتھی برسی کے موقع پر دہلی کے کانگریس کے جواہر بھون آڈیٹوریم میں دکھایا گیا۔ اس ہفتے، کئی لوگوں نے اپنے سوشل میڈیا ڈسپلے پکچرز کو خالد کی تصویر میں اس پیغام کے ساتھ تبدیل کیا، ’’ناانصافی کے چار سال۔ آزاد عمر! اختلاف رکھنے والے تمام افراد کو رِہا کرو۔‘‘
اداکارہ سوارا بھاسکر نے ایکس پوسٹ کیا کہ ’’آج عمر خالد کو بغیر ضمانت، مقدمے یا جرم کے قید کئے جانے کے ۴؍ سال مکمل ہو رہے ہیں۔ جس ملک کو جمہوریت سمجھا جاتا ہے اس میں یہ ایک دھوکا ہے۔ یہ ہمارے نظام انصاف کی شرمناک حقیقت ہے۔‘‘
کئی دوسرے لوگوں نے جے این یو کے سابق ریسرچ اسکالر کی تصاویر اور پوسٹروں کے ساتھ ایک جیسے پیغامات پوسٹ کئے۔ماہر تعلیم اور کارکن یوگیندر یادو نے ایکس پر ایک ویڈیو پیغام پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ چار سال ہمارے عدالتی نظام اور ہندوستان کے آئین پر داغ ہیں۔‘‘
یوا ہلہ بول تحریک کے انوپم نے ایکس پر ۲۰۲۲ء میں عمر خالد کی جانب سے انہیں لکھے گئے ایک خط کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جب میرے دوست خالد نے جیل میں چار سال مکمل کرلئے، مَیں اس خوبصورت خط کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ اس نے مجھے تب لکھا تھا جب اگنی پتھ اسکیم کے خلاف ہماری تحریک کے دوران مجھے تہاڑ جیل بپیج دیا گیا تھا۔ اب جبکہ میں جیل سے باہر ہوں، وہ اب بھی بغیر کسی جرم، مقدمے یا ضمانت کے ناانصافی کا شکار ہیں۔‘‘