نیویارک ٹائمز نے پورے صفحہ کی اسٹوری شائع کرتے ہوئے عمر خالد کو۴؍ سال سے مقدمہ کے بغیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کو مودی کے ہندوستان میں اختلاف رائے کی قیمت قرار دیا۔
EPAPER
Updated: October 25, 2024, 10:48 AM IST | New Delhi
نیویارک ٹائمز نے پورے صفحہ کی اسٹوری شائع کرتے ہوئے عمر خالد کو۴؍ سال سے مقدمہ کے بغیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کو مودی کے ہندوستان میں اختلاف رائے کی قیمت قرار دیا۔
مقدمہ چلائے بغیر عمر خالد کو ۴؍سال سے سلاخوں کےپیچھے رکھنے کی گونج اب عالمی میڈیا تک میں پہنچ گئی ہے اور نیویارک ٹائمز نے ایک مکمل صفحہ کی اسٹوری شائع کرکے اس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ نیو یارک ٹائمز نے اسٹوری ’’کسی ٹرائل کےبغیر۴؍سالوں سے جیل میں قید، مودی کے ہندوستان میں اختلاف رائے کی قیمت‘‘کی سرخی کےساتھ شائع کی ہے، جس کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پر عمر خالد کے حوالہ سے عدالتی طرز عمل کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایاجارہاہے۔ دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی نےنیو یارک ٹائمز کی یہ رپورٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چڈپرتنقید کی۔ انہوں نے لکھا کہ ’’اچھا ہوتا اگر جج صاحب ایک بار عمر خالد کے بارے میں بھگوان سے بات کر لیتے۔ اگر جج بھگوان کو بتاتےکہ عمر۴؍سال سے بغیر مقدمہ چلائے جیل میں سڑرہا ہے تو بھگوان کچھ تو کہتے۔ اگرضمانت نہ بھی ہوتی تو ٹرائل ضرور ہوتا۔ ‘‘
سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نےاس رپورٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ نیویارک ٹائمزنےجو کچھ کیا، وہ ہمت ہندوستان کے کسی بھی میڈیا نے نہیں دکھائی۔ راہل نام کےایک دیگریوزرنے بغیر مقدمہ چلائے عمر خالد کو جیل میں رکھنے پر تنقید کرتے ہوئےآشیش مشرا کو ضمانت دیئے جانے کی ایک رپورٹ شیئر کی۔ انہوں نے لکھا ’’طاقتورججوں نےعمر خالد سے لے کر مہیش راوت تک جیسے کارکنوں کو سالوں تک نامعلوم جرائم کیلئے جیل میں سڑنے کو یقینی بنایا، لیکن ۸؍ بے گناہوں کا قاتل ۲۰۲۳ء سےباربار ضمانت کے اصول کی خلاف ورزی کے بعد آزادی سے لطف اندوز ہوسکتا ہےاور پھر ہم شہریوں سے کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کا احترام کریں۔ ‘‘ سینئر وکیل پرشانت بھوشن نےبھی نیویارک ٹائمزکی یہ رپورٹ شیئر کی۔ انہوں نے اسٹوری کی سرخی کو ٹویٹ کرتے ہوئے یہ پوسٹ شیئر کی۔ کچھ یوزر انڈرورلڈ ڈان چھوٹا راجن کوضمانت دیئےجانے کی خبر پوسٹ کرکے عمر خالد کو کسی مقدمہ کے بغیر جیل میں رکھنے پر بھی سوال اٹھارہےہیں۔ خیال رہے کہ نیویارک ٹائمز نے یہ رپورٹ ۲۲؍اکتوبر کو شائع کی۔ اس میں مرکزی حکومت پر عدالتی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے اور اسے اپنےمخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا کام الزام عائد کیا گیا۔ اس میں دیگر سیاسی کارکنوں اور عمر خالد کے اہل خانہ کے حوالہ سے کہا گیا کہ اگر اختلاف رائے رکھنے والا کوئی شخص مسلمان ہو تو حکومت کا ہتھوڑازیادہ زور سے چلتا ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عمر خالد اور دیگر کو کسی ٹرائل کے بغیر طویل عرصہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے پرمتعدد انسانی، سماجی اور سیاسی کارکنان اپنی شدید برہمی کا اظہاراور عدلیہ کے طرز عمل پر بھی سوال اٹھاچکے ہیں۔