• Mon, 27 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اصلاحات اور عالمی مدد شام کو مشکل حالات سے نکال سکتے ہیں: یو این ادارے

Updated: January 26, 2025, 7:17 PM IST | Damascus

مغربی ایشیا کیلئے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (ایسکوا) اور ادارے کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی حالیہ مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک شام کی معیشت دو تہائی حد تک سکڑ گئی ہے اور کرنسی کی قدر میں متواتر کمی ہو رہی ہے۔

A UNICEF official explains to children about her organization`s work. Photo: INN.
یونیسف کی ایک اہلکار بچوں کو اپنے ادارے کے کام بارے بتا رہی ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

مغربی ایشیا کیلئے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (ایسکوا) اور ادارے کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی حالیہ مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی معیشت دو تہائی حد تک سکڑ گئی ہے اور کرنسی کی قدر میں متواتر کمی ہو رہی ہے۔ رپورٹ بعنوان `’’شام دوراہے پر: مستحکم تبدیلی کی جانب ‘‘کے مطابق، ۲۰۱۱ء میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ملک کے جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) میں ۶۴؍ فیصد تک کمی آ گئی ہے۔ ۲۰۲۳ءکے مقابلے میں شامی پاؤنڈ کی قدر تقریباً دو تہائی حد تک گھٹ گئی ہے جس سے گزشتہ سال مہنگائی میں ۴۰؍فیصد تک اضافہ ہوا۔ برآمدات کبھی شام کی معاشی ترقی میں خاص اہمیت رکھتی تھیں جو اب بڑی حد خوراک جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں تک محدود ہو گئی ہیں جبکہ صنعتی سازوسامان کی تجارت میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔ ’’ایسکوا‘‘ کی ایگزیکٹو سیکریٹری رولا دشتی نے کہا ہے کہ شام کو تقریباً۱۵؍ سال سے بحرانی حالات کا سامنا ہے اور اب یہ اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ یا تو اسے تعمیرنو اور مفاہمت کی راہ اپنانا ہو گی یا مزید ابتری کا شکار ہو جائے گا۔ 
انسانی تباہی
رپورٹ کے مطابق، شام میں ایک کروڑ ۶۷؍لاکھ لوگ یا تقریباً دو تہائی ملکی آبادی کو کسی نہ کسی طرح کی انسانی امداد درکار ہے۔ ۷۰؍لاکھ لوگ بے گھر ہیں اور شدید غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں ترقیاتی مسائل سے متعلق `ایسکوا کے تازہ ترین اشاریے میں شام۱۶۰؍ ممالک میں سے ۱۵۸؍ ویں درجے پر آتا ہے جس سے ملک کو انتظامی و انصرام، ماحولیاتی انحطاط اور بڑے پیمانے پر پھیلی غربت کے حوالے سے درپیش شدید مسائل کا اندازہ ہوتا ہے۔ 
بحالی کی راہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کو تعمیرنو، سرکاری اداروں میں اصلاحات اور عالمی امداد کی ضرورت ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ۲۰۳۰ءتک اس کے جی ڈی پی میں ۱۳؍فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ ترقی جی ڈی پی کو رواں دہائی کے اختتام پر قبل از جنگ دور کے مقابلے میں ۸۰؍ فیصد تک ہی بحال کرے گی جبکہ فی کس جی ڈی پی ۲۰۱۰ء کے مقابلے میں نصف حد تک بحال ہو سکے گا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ جی ڈی پی کو جنگ سے پہلے کے دور کی سطح تک لانے کیلئے آئندہ مزید چھ سال تک ۵؍فیصد کی شرح سے ترقی درکار ہو گی۔ 
خدشات اور امکانات
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ متواتر عدم استحکام، کمزور حکومت اور ناکافی مالی وسائل کے باعث معاشی جمود اور غربت برقرار رہنے کا خدشہ ہے۔ اگر ملک میں مزید مسلح تنازعات اور تقسیم نے جنم لیا تو ۲۰۳۰ءتک اس کے جی ڈی پی میں سالانہ ۷ء۶۸؍فیصد تک کمی آئے گی اور انسانی بحران اور علاقائی سلامتی کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں استحکام آنے کے نتیجے میں اس کے ہمسایہ ممالک اردن، لبنان اور دیگر پر بھی مثبت اثرات ہوں گے اور سرحدیں کھولے جانے اور تجارتی راستوں کی بحالی سے سبھی کے مشترکہ جی ڈی پی میں بھی ترقی ہو گی۔ لیکن، عدم تحفظ کی صورتحال برقرار رہنے کے نتیجے میں غیرقانونی تجارت میں اضافے کا خدشہ ہو گا جس سے پناہ گزینوں کے لیے مختص کردہ وسائل پر بوجھ آئے گا اور علاقائی استحکام کمزور پڑ جائے گا۔ 
اعتماد اور امن کی بحالی
رپورٹ میں سرکاری اداروں کی بحالی اور پائیدار امن کیلئے سیاسی فریقین کے مابین مفاہمت کی کوششوں کو مضبوط بنانے، احتساب اور سلامتی کے شعبے میں اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے بھی زور دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اس میں ملک کو علاقائی اور بین الاقوامی مدد اور تعاون کی فراہمی بشمول پابندیاں ہٹانے اور مشترکہ معاشی کوششوں کو بڑھانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ دونوں اداروں نے حالات کو بہتر بنانے کی غرض سے سرکاری اداروں میں اصلاحات کے علاوہ نجی شعبے کے کردار کو مضبوط بنانے اور محض ہنگامی حالات سے نمٹنے کے علاوہ جامع و پائیدار معاشی بحالی کیلئے امداد کی فراہمی پر بھی زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زراعت، صنعت اور معاشی شعبے میں ترقی بھی لانا ہو گی جس کے لیے پالیسی کے حوالے سے جامع فریم ورک درکار ہوں گے جن میں تنازعات سے بچنے اور استحکام برقرار رکھنے پر خاص توجہ دی جانا ضروری ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK