• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کسانوں، خواتین اور نوجوانوں کو بجٹ سے اُمیدیں

Updated: July 22, 2024, 10:42 AM IST | New Delhi

ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اپنی تیسری میعاد کے پہلے مکمل بجٹ میں خواتین، کسانوں اور نوجوانوں کیلئے اپنا خزانہ کھول سکتی ہے۔

Finance Minister Nirmala Sitharaman and others. Photo: INN.
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اور دیگر ۔تصویر: آئی این این۔

مودی حکومت کی تیسری میعاد کا پہلا بجٹ ۲۳؍جولائی ۲۰۲۴ءکو پیش کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن منگل کو لگاتار ساتواں بجٹ پیش کر کے ریکارڈ بنائیں گی۔ عام انتخابات کے بعد آنے والے اس بجٹ میں حکومتی اعلانات پر سب کی نظریں ہیں۔ اس بار انتخابی نتائج میں ۱۰؍ سال سے مرکز میں اکثریت کے ساتھ برسراقتدار رہنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کو کم سیٹوں پر مطمئن ہونا پڑا۔ حکمراں پارٹی کی نشستوں میں کمی کی سب سے بڑی وجہ عوامی مفاد کے مسائل پر مرکز کی لاعلمی ہے۔ عام انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں نے کسانوں، بیروزگاری کے شکار نوجوانوں، خواتین اور ملازمت پیشہ افراد کے مسائل پر حکومت کو گھیر لیاتھا اور وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ ایسے میں یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہوگا کہ حکومت اس بجٹ میں ان طبقات کے افراد کو کیا تحفہ دیتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت اپنی تیسری میعاد کے پہلے مکمل بجٹ میں خواتین، کسانوں اور نوجوانوں کیلئے اپنا خزانہ کھول سکتی ہے۔ نوجوانوں کیلئے روزگار بڑھانے کیلئے نئے اقدامات بجٹ میں سامنے آسکتے ہیں جبکہ حکومت خواتین کو دولت مند بنانے کے بی جے پی کے منصوبے کو آگے بڑھانے کیلئے بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کر سکتی ہے۔ بجٹ سے پہلے ان طبقات کے افراد کی حکومت سے اپنی توقعات وابستہ ہیں۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 
روپیہ کہاں سے آتاہے اور کہاں جاتاہے ؟
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے فروری میں ۴۷ء۶۶؍ لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا تھا۔ اس بجٹ کو بنیاد بنا کر دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ بجٹ کا ہر روپیہ کس چیز سے آیا اور کہاں گیا۔ حکومت کی جانب سے گزشتہ بجٹ میں جو رقم جاری کی گئی تھی اس کے مطابق بجٹ کے ہر روپے کے۲۸؍ پیسے قرض اور دیگر واجبات کے ذریعے بڑھائے گئے تھے۔ قرض کے بعد حکومت کے کھاتے میں سب سے زیادہ رقم انکم ٹیکس کے ذریعے جمع ہوئی۔ اس سے ہر ایک روپے کے ۱۹؍ پیسے حکومت کے کھاتے میں آئے۔ اس کے بعد اشیاء اور خدمات ٹیکس اور دیگر ٹیکس کی وصولی سے۱۸؍ پیسے سے زیادہ آمدنی ہوئی۔ 
 گزشتہ بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق حکومت کے پاس آنے والے ہر روپے میں سے۲۰؍ پیسے قرض کی ادائیگی (سود کی ادائیگی) ہوتی ہے۔ اگلے۲۰؍ پیسے ٹیکس اور ڈیوٹیز میں ریاستوں کے حصے کے ہوتے ہیں۔ حکومت مرکزی اسکیموں پر روپے کے۱۶؍ پیسے خرچ کرتی ہے (سوائے مرکزی سیکٹر اسکیموں، دفاعی اور اقتصادی امداد کے اخراجات کے)۔ ریاستوں میں مرکزی اسپانسرڈ اسکیم پر۸؍ پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔ ۸؍ پیسے دفاع پر خرچ ہوتے ہیں۔ فائنانس کمیشن اور دیگر ٹرانسفر آئٹمز (سینٹرل سیکٹر اسکیم) پر صرف ۸؍ پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ حکومت سبسیڈی پر۶؍ پیسے خرچ کرتی ہے۔ ایک روپے کا ۴؍ فیصد حکومت پنشن پر خرچ کرتی ہے۔ حکومت کی آمدنی کے ہر روپے میں سے ۹؍ پیسے دیگر اشیاء (دیگر اخراجات) پر خرچ ہوتے ہیں۔ 
زرعی شعبے کو اس بار بجٹ سے کیا امید ہے؟
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بجٹ سے پہلے کسانوں کے نمائندوں، زرعی ماہرین اور زراعت سے متعلق محکموں کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کی تھی اور ان سے مشورے لئے تھے۔ وزیر خزانہ نے زراعت اور کسانوں کو مضبوط بنانے کیلئے ان کے منصوبوں کو سمجھا۔ بجٹ سے کسانوں کی توقعات کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے، زراعت کے ماہر دیویندر شرما نے بتایا کہ لبرلائزیشن کے بعد سے مرکزی حکومتوں کی پوری توجہ مارکیٹوں اور بڑی کمپنیوں کی ترقی پر مرکوز ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت اب بھی بے روزگار ہے، کسانوں کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ہے جس کے نتیجے میں کسان آئے دن کاشتکاری چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ وہ ایک مزدورکی حیثیت سے کمائی کیلئے مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کی معاشی تصویر کو بدلنا ہے تو زراعت کو مرکزی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے جو آج بھی ہمارے ملک کی تقریباً۶۰؍ فیصد آبادی کی روزی روٹی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو کم سے کم امدادی قیمت فراہم کرکے ان کی بھرپور مدد کی جانی چاہئے۔ خیال رہے کہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے پیش کئے جانے والے عبوری بجٹ میں وزیر خزانہ نے دیہی ترقی پر زور دیتے ہوئے اپنی بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ کسان ہمارے `’اَن داتا‘ ہیں۔ عبوری بجٹ میں وزیر خزانہ نے کٹائی کے بعد کی سرگرمیوں میں نجی اور سرکاری سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا اعلان کیا تھا۔ 
خواتین اس بجٹ میں کیا چاہتی ہیں ؟
تقریباً۱۲؍ سال پہلے تک ملک میں خواتین کیلئے الگ ٹیکس کی سہولت موجود تھی۔ اس میں خواتین ٹیکس دہندگان کیلئے انکم ٹیکس میں بنیادی رعایت کی حد مردوں کے مقابلے قدرے زیادہ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین نے مردوں کے مقابلے میں کم ٹیکس ادا کیا۔ لیکن کانگریس حکومت نے مالی سال ۱۳۔ ۲۰۱۲ء میں اس نظام کو ختم کر دیا۔ تب حکومت نے مردوں اور خواتین دونوں کیلئے یکساں ٹیکس سلیب متعارف کروایا تھا۔ اس کے بعد سے خواتین کیلئے کوئی الگ انکم ٹیکس سلیب نہیں ہے تاہم اس بار خواتین مودی حکومت سے توقع کرتی ہیں کہ خواتین کیلئے الگ سے ٹیکس سلیب ہوگا۔ 
 حکومت سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ خواتین ووٹرس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت خواتین ٹیکس دہندگان کیلئے علاحدہ ٹیکس سلیب لا سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں بجٹ میں مختلف اور زیادہ نرمی دی جا سکتی ہے۔ فی الحال نئے ٹیکس سسٹم میں ۷؍ لاکھ روپے تک کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا۔ اب حکومت اسے۸؍ لاکھ روپے تک بڑھا سکتی ہے۔ ملک میں ٹیکسٹائل اور دستکاری کی صنعتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ بجٹ میں کپڑوں کی قیمت کم کرنے کی امید کر رہی ہے، تاکہ اس سے متعلقہ کاروبار کو فروغ ملے۔ ان کا دوسرا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو بینکنگ سے منسلک کیا جائے۔ خواتین خود روزگار اور اسکل ڈیولپمنٹ بجٹ میں حکومت کی جانب سے خصوصی اعلان کی بھی توقع کر رہی ہیں۔ نئے ٹیکس نظام میں تنخواہ پانے والے ملازم کو ہاؤسنگ لون پر سود کی کٹوتی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ 
بجٹ میں نوجوانوں کو حکومت سے کیا امید ہے؟
بے روزگاری سے دوچار نوجوانوں کو بھی مودی حکومت کے تیسرے دور کے پہلے بجٹ سے بہت سی امیدیں ہیں۔ اس وقت ملک میں نوجوانوں کو سب سے بڑا مسئلہ اپنی روزی روٹی کو یقینی بنانا ہے۔ نوجوان مسلسل حکومت سے اس سمت میں سخت قدم اٹھانے کی اپیل کر رہے ہیں۔ مودی حکومت کی پہلی دو میعادوں میں، اسکل انڈیا اور میک ان انڈیا مشن کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار سے جوڑنے کیلئے بہت سے اقدامات کئے گئے لیکن وہ اقدامات زمینی سطح پر ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے میں اس بار نوجوان امید کر رہے ہیں کہ حکومت ان کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ ایسے اقدامات کرے جن کو سنجیدگی سے نافذ کیا جا سکے اور یہ صرف ہوا میں نہ رہیں۔ نیشنل کریئر سروس پورٹل پر درج پوسٹ کی تعداد بڑھ کر ۱ء۰۹؍ کروڑ ہو گئی ہے جبکہ ملازمتوں کیلئے رجسٹر کرنے والوں کی تعداد صرف۸۷ء۲؍ لاکھ ہے۔ ملازمتوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود نوجوانوں کو کام نہیں مل پا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امیدوار نوکری کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ توقع ہے کہ حکومت اس بجٹ میں اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرے گی۔ بجٹ سے پہلے کی میٹنگوں میں، سی آئی آئی نے مشورہ دیا ہے کہ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لئے اسکل ڈیولپمنٹ کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ ملک میں پی ایم اسکل ڈیولپمنٹ اسکیم چلائی جارہی ہے، جس میں آنے والے برسوں میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا جانا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK