یہ بل اسی سرمائی اجلاس میں پیش کیا جاسکتا ہے، تفصیلی غور و خوض کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھی سونپا جاسکتا ہے ،اس بل کو منظور کروالینا سرکار کیلئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔
EPAPER
Updated: December 13, 2024, 4:37 PM IST | Agency | New Delhi
یہ بل اسی سرمائی اجلاس میں پیش کیا جاسکتا ہے، تفصیلی غور و خوض کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھی سونپا جاسکتا ہے ،اس بل کو منظور کروالینا سرکار کیلئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔
جیسا کہ امید کی جا رہی تھی، ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ بل کو مودی کابینہ سے منظوری مل گئی ہے۔ ذرائع کے حوالے سے کچھ میڈیا رپورٹس نے بتایا ہے کہ اب یہ بل رواں پارلیمانی اجلاس میں کبھی بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ اس بل کو تفصیلی بحث کے لئے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ مرکزی کابینہ ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ سے متعلق مشورہ کے لئے بنائی گئی رامناتھ کووند کمیٹی کی رپورٹ پہلے ہی منظور کر چکی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس بل پر اتفاق رائے قائم ہو اور سبھی فریقین کے درمیان تبادلہ خیال ہو۔ جب یہ بل جے پی سی کے پاس جائزہ کے لئے بھیجا جائے گا تو سبھی سیاسی پارٹیوں کے نمائندے اس پر بحث کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی سبھی ریاستی اسمبلیوں کے اسپیکرس کو بھی میٹنگ میں مدعو کیا جا سکتا ہے۔ ملک بھر کے دانشور افراد کے ساتھ ہی عام لوگوں کی رائے بھی لی جائے گی۔ میٹنگ میں ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کے فوائد اور اسے عملی جامہ پہنانے کے طریقوں پر تفصیلی گفتگو ہوگی لیکن اس بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کروالینا مودی حکومت کے لئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہو گا۔ اپوزیشن پارٹیاں پہلے ہی اسے ملک کی وفاقیت پر حملہ قرار دے کر اس کی مخالفت کررہی ہیں اور اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بھی اس کی حمایت پر راضی ہو جائیں ۔ ایسے میں سرکار کو زبردست مینجمنٹ کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
واضح رہے کہ مودی حکومت اس بل کے تعلق سے لگاتار سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت نے ستمبر۲۰۲۳ء میں اس دیرینہ منصوبہ کو آگے بڑھانے کے لئے سابق صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کووند کمیٹی نے اپریل ۔مئی میں ہونے والے لوک سبھا انتخاب کے اعلان سے عین قبل مارچ میں حکومت کو اپنی سفارشات سونپی تھی۔ مرکزی حکومت نے کچھ وقت پہلے کمیٹی کی سفارشات کو منظوری دی تھی۔ کووند کمیٹی کی رپورٹ میں دو مراحل میں انتخاب کرانے کی سفارش کی گئی تھی۔ کمیٹی نے پہلے مرحلہ کے تحت لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ساتھ میںکرانے کی سفارش کی ہے جبکہ دوسرے مرحلہ میں مقامی بلدیات کے لئے انتخاب کرانے کا مشورہ دیا ہے۔
اس تعلق سے مرکزی وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان نے دعویٰ کیا کہ بار بار ہونے والے انتخابات ملک کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی گیتا تہوار کے حصہ کے طور پر کروکشیتر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چوہان نے کہا کہ ملک وزیر اعظم مودی کی قیادت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ چوہان نے کہا کہ وزیر اعظم کی قیادت میں ایک شاندار، خوشحال اور طاقتور ہندوستان کی تعمیر ہو رہی ہے۔ چوہان نے مزید کہاکہ لیکن ہندوستان کی ترقی اور خوشحالی میں ایک رکاوٹ ہے، وہ ہے متواتر انتخابات۔ ملک میں کوئی اور چیز ہو یا نہ ہو لیکن انتخابی تیاریاں پانچ سال کے بارہ مہینے جاری رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب لوک سبھا انتخابات ختم ہوتے ہیں تو اسمبلی انتخابات آجاتے ہیں۔ ہریانہ، جموں کشمیر، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ ہو چکے ہیں، اب دہلی اسمبلی انتخابات آ رہے ہیں۔ اسی لئے ون نیشن ون الیکشن کا منصوبہ لایا گیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی اسے منظور کرلیا جائےاور ملک کی تمام پارٹیاں اس منصوبے کی حمایت کریں گی۔
واضح رہے کہ ون نیشن ون الیکشن کا بل منظور کروالینا اتنا آسان نہیں ہو گا کیوں کہ اس کے لئے مرکزی حکومت کو آئین میں کئی ترمیمات کرنی ہوں گی۔ اس کے لئے سرکار کو ۲؍ تہائی اکثریت درکار ہو گی یا پھر ۲؍تہائی اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔ موجودہ صورتحال میں یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کے ساتھ ہی مجوزہ بل کو ملک کی ۵۰؍ فیصد ریاستی اسمبلیوں سے بھی منظور کروانا ضروری ہو گا۔ ہر چند کہ کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے لیکن تمل ناڈو ،کیرالا ، کرناٹک ، تلنگانہ،مغربی بنگال ، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ ،پنجاب ،جموں کشمیر جیسی اہم ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں نہیں ہے۔ یہاں سے مذکورہ بل کو منظور کروالینا بی جے پی کے لئے بہت مشکل ہو گا۔ ایسی صورتحال میں پارٹی کی کوشش یہی ہے کہ اس پر اتفاق رائے قائم ہو جائے اور پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ یہ بل ریاستی اسمبلیوں سے بھی بغیر کسی مخالفت کے منظور ہو جائے۔