Updated: October 02, 2024, 6:18 PM IST
| Lucknow
اس معاملے میں لڑکی کے اپنی گواہی سے دستبردار ہونے کے باوجود عدالت نے عمر قید کا فیصلہ سنایا۔ ۱۹؍ ستمبر کو لڑکی نے بتایا تھا کہ اس کی پچھلی گواہی جھوٹی تھی اور دائیں بازو کی جماعتیں اس کے والدین پر دباؤ ڈال رہی تھیں۔ واضح رہے کہ جج دیواکر ۲۰۲۲ء میں وارانسی میں گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دینے کیلئے بھی جانے جاتے ہیں۔
بریلی، اتر پردیش کی ایک عدالت کے جج نے ایک ۲۵؍ سالہ نوجوان اور اس کے والد کو ایک ۲۰؍ سالہ لڑکی کو زبردستی اسلام قبول کروانے اور ہندو شناخت اختیار کرتے ہوئے اس سے شادی کرنے کا مجرم قرار دیا اور انہیں بالترتیب عمر قید اور ۲؍ سال قید کی سزا سنائی۔ اس کیس میں لڑکی کے اپنی گواہی سے دستبردار ہونے کے باوجود عدالت نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ ۱۹؍ ستمبر کو لڑکی نے بتایا کہ اس کی پچھلی گواہی جھوٹی تھی اور دائیں بازو کی جماعتیں اس کے والدین پر دباؤ ڈال رہی تھیں۔ لیکن عدالت نے لڑکی کے بیان میں تبدیلی کو ملزم کے اثر ورسوخ سے منسوب کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔
یہ بھی پڑھئے: وقف ترمیمی بل کسی صورت میں قبول نہیں ہے، اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا
فاسٹ ٹریک عدالت میں جج روی کمار دیواکر نے کہا کہ یہ شخص ’’لو جہاد‘‘ کا مجرم ہے۔ جج کے مطابق، لو جہاد، بنگلہ دیش اور پاکستان میں اس طرح کے معاملات کی طرز پر ملک کو کمزور کرنے کے مذموم ارادے سے کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ جج دیواکر، ۲۰۲۲ء میں وارانسی میں گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دینے کیلئے بھی جانے جاتے ہیں۔
لو جہاد ایک غیر مصدقہ سازشی نظریہ ہے جسے ہندوستان میں ہندوتوا گروپوں نے فروغ دیاہے۔ ان کا الزام ہے کہ یہ مسلمان مردوں کی طرف سے ایک منظم کوشش ہے جس کے ذریعے وہ ہندو خواتین کو ان سے محبت کرنے اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پچھلی دہائی میں کئی معاملات میں قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے لو جہاد کے الزامات کی تحقیقات کی اور ان دعوؤں کو مسترد کیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ لو جہاد کے عمل میں خطیر مالی وسائل درکار ہوتے ہیں لہٰذا اس معاملے میں غیر ملکی فنڈنگ کا امکان ہے۔ جسٹس دیواکر نے سماعت کے دوران کہا کہ لو جہاد کا بنیادی مقصد آبادی کو تبدیل کرنا اور بین الاقوامی تناؤ کو ہوا دینا ہے۔ بنیادی طور پر، لو جہاد دھوکہ دہی سے شادیوں کے ذریعے غیر مسلم خواتین کو اسلام قبول کروانے سے جڑا ہوا ہے۔
خیال رہے کہ۲۰۲۴ء میں اتر پردیش حکومت کے ریاست میں غیر قانونی تبدیلی مذہب (ترمیمی) ایکٹ میں نئی سخت دفعات متعارف کرانے کے بعد یہ پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔ اس معاملہ میں ایف آئی آر بریلی کے دیورنیا پولیس اسٹیشن میں مئی ۲۰۲۳ء میں درج کی گئی تھی۔ جج نے نئے قانون کے تحت ملزم کو قصوروار قرار نہیں دیا لیکن ریاستی پولیس کے سربراہ، چیف سیکریٹری اور بریلی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو اپنے فیصلے کی کاپی بھیج کر ہدایت دی کہ وہ نئی دفعات کے مطابق مقدمہ درج کریں۔
مذکورہ معاملہ میں مقدمہ ایک خاتون کی جانب سے درج کرائی گئی شکایت پر چلایا گیا تھا جس میں محمد عالم احمد، اس کے والد صابر عالم اور خاندان کے چھ دیگر افراد پر مذہب تبدیل کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے اور شادی کے بعد اسقاط حمل کرنے پر مجبور کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔