• Sun, 29 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

امریکہ: مبینہ قاتل لوئی جی مینجونے سوشل میڈیا ’’ہیرو‘‘ اور ’’فیشن انفلوئنسر‘‘

Updated: December 28, 2024, 6:56 PM IST | New York

۴؍ دسمبر کو یونائیٹڈ ہیلتھ کیئر کے سی ای او برائن تھامسن کے مبینہ قتل کیلئے ۲۶؍ سالہ لوئی جی مینجونےپر نیویارک میں مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ تاہم، سوشل میڈیا پر وہ ’’ہیرو‘‘ اور ’’فیشن انفلوئنسر‘‘ بن کر ابھرے ہیں۔ ۷۰؍ فیصد بالغ امریکیوں نے اس قتل کو ’’درست‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں انشورنس انڈسٹری شہریوں کو پریشان کرتی ہے۔

 Luigi Mangione on his way to court. Photo: X
لوئی جی مینجونے عدالت میں جاتے ہوئے۔ تصویر: ایکس

امریکیوں کے درمیان کرائے گئے ایک نئے سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ تقریباً ۱۰؍ میں ۷؍ بالغوں کا خیال ہے کہ لوئی جی مینجونے (Luigi Mangione) کو ’’یونائیٹڈ ہیلتھ کیئر‘‘ کے سی ای او برائن تھامسن کے قتل کیلئے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔ این او آر سی پول ۱۲؍ سے ۱۶؍ دسمبر کیا گیا جس میں کل ۱۱۰۰؍ بالغوں نے حصہ لیا۔ ۱۰؍ میں۷؍ بالغوں نے کہا کہ بیمہ کمپنیوں کی طرف سے صحت کی دیکھ بھال کے کوریج سے انکار یا ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کے منافع میں کم از کم ایک ’’اعتدال پسند‘‘ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ۱۰؍ میں سے ۷؍ بالغوں نے کہا کہ ہم نے تھامسن کی موت کے بارے میں پڑھا کچھ اور سنا کچھ۔ ۱۰؍ میں سے ۳؍ امریکیوں نے کہا کہ انہیں گزشتہ سال اپنے ہیلتھ انشورنس کمپنی سے کوریج حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

واضح رہےکہ لوئی جی پر یونائیٹڈ ہیلتھ کیئر کے سی ای او ۵۰؍ سالہ برائن تھامسن کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ ۴؍ دسمبر کو مینجونے نے مبینہ طور پر نیویارک میں ایک ہوٹل کے سامنے تھامسن پر فائرنگ کی تھی۔ اس کے بعد وہ نیویارک شہر سے فرار ہو گئے اور صرف پانچ دن بعد پنسلوانیا میں گرفتار ہوئے۔ انہیں پنسلوانیا سے نیویارک منتقل کر دیا گیا جہاں ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔ خیال رہے کہ چند روز قبل ایمرسن کالج کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے میں بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا گیا۔ اس میں ۴۱؍  فیصد افراد نے کہا تھا کہ لوئی جی نے مبینہ طور پر جو قتل کیا ہے وہ قابل قبول ہے۔ ۱۹؍ سے ۲۹؍ سال کی عمر کے ۲۴؍ فیصد امریکی رائے دہندگان نے کہا کہ لوئی جی کا تھامسن کو قتل کرنا ’’کسی حد تک‘‘ قابل قبول تھا، اور ۱۷؍ فیصد نے کہا کہ یہ مکمل طور پر قابل قبول ہے۔
۲۳؍ دسمبر پیر کو جب ان پر عدالت میں قتل اور دہشت گردی کے الزامات عائد کئے گئے تو انہوں نے ان کا اعتراف نہیں کیا۔ پیشی کے دوران کورٹ کا احاطہ اور کمرۂ عدالت صحافیوں اور نوجوانوں سے بھرا ہوا تھا، جن میں بیشتر خواتین تھیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ لوئی جی کی حامی ہیں اور اگر انہوں نے قتل کیا ہے تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خیال رہے کہ لوئی جی کو نیویارک میں ۱۱؍ مجرمانہ مقدمات کا سامنا ہے، جن میں فرسٹ ڈگری قتل اور دہشت گردی کے جرم کے طور پر قتل شامل ہیں۔ اگر ان پر عائد کئے گئے تمام الزامات کا جائزہ لیا جائے تو انہیں پیرول کے امکان کے بغیر عمر قید کی لازمی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوشل میڈیا کا ’’ہیرو‘‘
 لوئی جی مینجونے سوشل میڈیا پر ایک ’’ہیرو‘‘ بن کر ابھرے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں صارفین نے کمپنی کے خلاف آواز بلند کی ہے اور لوئی جی کے اقدام کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہیلتھ کیئر کمپنی نے انہیں وقت پر بیمہ کی ادائیگی نہیں کی جس کے سبب ان کے عزیز ان سے جدا ہوگئے اس لئے لوئی جی کا سی ای او کو قتل کرنا ہی درست انصاف ہے۔‘‘ کمپنی نے اربوں ڈالر جمع کررکھے ہیں مگر بیمہ لینے والوں کو رقم دینے کیلئے مختلف قسم کے حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ 

لوئی جی مینجونے نے سی ای او کا قتل کیوں کیا؟
لوئی جی مینجونے ریڑھ کی ہڈی کا مرض ہے ۔ اپنے مرض کے علاج کیلئے وہ انشورنس کمپنیوں کے چکر لگا رہا تھا مگر خاطر خواہ مدد نہ ملنے پر وہ انشورنس انڈسٹری سے بدظن ہوگئے۔ تاہم، وہ یونائیٹڈ ہیلتھ کیئر کے صارف کبھی نہیں تھے۔ انہوں نے مبینہ طور پر اس کمپنی کے سی ای او کو قتل کرنے کا منصوبہ اس لئے بنایا کہ اسی کے سب سے زیادہ صارف کمپنی کی پالیسیوں سے پریشان تھے۔

لوئی مینجونے ’’فیشن انفلوئنسر‘‘
کمرہ عدالت میں پیش ہونے پر لوئی جی نے برگنڈی رنگ کا سویٹر پہنا ہوا تھا جس نے سبھی کی توجہ کھینچ لی۔ آئیوی لیگ سے تعلیم حاصل کرنے والے لوئی جی نے سویٹر کے نیچے سفید کالر والی قمیض پہن رکھی تھی، اور ہلکے بھوری رنگ کے سلیکس اور نارنجی جوتے بھی پہنے تھے۔ انہوں نے نورڈ اسٹورم برانڈ کا سویٹر پہنا تھا۔ پیشی کے ایک دن بعد نیویارک شہر سے یہ سویٹر مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ لوگ اسے خریدنے کیلئے دوڑ پڑے۔ دیگر رنگوں میں بھی یہ سویٹر تیزی سے فروخت ہورہا۔ مداح، لوئی جی کے انداز کی نقل کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ نارنجی رنگ کے قیدیوں کے لباس کی طرز پر بھی فیشن شوز میں ملبوسات بنائے گئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK