Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: سماعت سے قبل فلسطین حامی محمود خلیل کا دی واشنگٹن پوسٹ کو خط

Updated: April 18, 2025, 10:11 PM IST | Washington

فلسطین حامی محمود خلیل نے ملک بدری کے تعلق سے اپنی سماعت سے قبل دی واشنگٹن پوسٹ کو خط لکھ کر امریکہ میں انصاف کے نظام میں ناانصافی کی نشاندہی کی- انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ "میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میرے لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ جب وہ نیلے آسمان کی طرف دیکھیں تو انہیں کسی میزائل کے گرنے کا خوف نہ ہو-"

Mahmoud Khalil. Picture: INN
محمود خلیل۔ تصویر: آئی این این

کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ محمود خلیل، جنہیں فلسطین حامی احتجاج کیلئے امیگریشن اور کسٹم انفورسمنٹ کے ذریعے حراست میں لیا گیا تھا، نے امریکہ میں انصاف کے نظام میں ناانصافی کے تعلق سے بات چیت کی۔ محمود خلیل، جنہوں نے نیو یارک سٹی میں واقع اپنی یونیورسٹی میں فلسطین کے حق میں ریلیوں میں حصہ لیا تھا، کو آئی سی ای نے ریلی میں ان کی شرکت کیلئے حراست میں لیا تھا اور گزشتہ ہفتے ایک عدالتی سماعت میں جج کی طرف سے یہ فیصلہ سنایا گیا تھا کہ انہیں امریکہ سے ملک بدر کیا جا سکتا ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ آج محمود خلیل نے اپنی سماعت سے قبل اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کو ایک خط لکھا ہے۔ محمود خلیل نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ "جمعہ کو میں امیگریشن جج کے کمرہ عدالت میں بیٹھا ہوا تھا جہاں جج یہ طے کر رہے تھے کہ امریکی حکومت میری مستقل قانونی شہریت اور حکومت کے میرے خلاف بے بنیاد دعوؤں کے باوجود مجھے ملک بدر کرے گی یا نہیں۔ ان کے زیادہ تر ثبوت سنسنی خیز ٹیبلوئیڈ سے اخذ شدہ ہیں۔" اگر چہ فیصلے کے بعد محمود خلیل کو فوری طور پر ملک بدر نہیں کیا جائے گا لیکن انہیں مزید عدالتی پیشیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں ٹرمپ انتظامیہ کے تعلق سے کہا کہ "مجھے معلوم ہے کہ ٹرمپ اتنظامیہ کس طرح اپنے انسدادی ایجنڈے کے نفاذ کیلئے امیگریشن کے قانون کا استحصال کر رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کس طرح تیز رفتاری سے میرے کیس کی سماعت کی گئی اور فیصلہ سنایا گیا اور مناسب کارروائی کے  بجائے سوچے سمجھے کارروائی کی جارہی ہے۔ دوسری  طرف، میں ان لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں جن کے ساتھ میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہا ہوں اور  جن میں سے بہت سے قیدی مہینوں یا برسوں سے اپنی سماعت کا انتظار کررہے ہیں۔"  محمود خلیل نے سوال قائم کیا کہ " کولمبیا یونیورسٹی کے مظاہرین طلبہ سے آزادی اظہار رائے کے حق کو ان سے چھینتے ہوئے انہیں حراست میں کیوں لیا جارہا ہے، اسرائیل کے مسلسل دسیوں ہزار فلسطینیوں کے قتل کے خلاف احتجاج کے بعد میرے آئینی حقوق مجھ سے کیوں چھینے جارہے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ "کولمبیا کے ہزاروں طلبہ، جن میں مسلمان، یہودی اور عیسائی وغیرہ شامل ہیں، کی طرح میں بھی تمام انسانوں کیلئے اتحاد پر یقین رکھتا ہوں۔ میں انسانی شناخت کا قائل ہوں- میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میرے لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ جب وہ  نیلے آسمان کو دیکھیں تو انہیں کسی میزائل کے گرنے کا خوف نہ ہو۔" 

حقوق صرف ان کیلئے ہیں جن کے پاس طاقت ہے

محمود خلیل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ "حقوق صرف انہی لوگوں کیلئے ہیں جن کے پاس طاقت ہے، علاوہ ازیں غریب، سیاہ فام اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ہمیشہ فلسطین کے بارے میں آزادی اظہارے رائے کو غیر معمولی طور پر کمزور کر دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں اور طلبہ پر کریک ڈاؤن یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت فلسطینی کی آزادی کے خیال کو مین اسٹریم میں داخل ہوتا دیکھ کتنی خوفزدہ ہے۔ کیا اسی لئے ٹرمپ انتظامیہ مجھے ملک بدر نہیں کر رہی اور ارادی طور پر لوگوں کو اس بارے میں گمراہ کر رہی ہے کہ میں کون ہوں اور میں کس کیلئے کھڑا ہوں۔" جہاں محمود خلیل عدالت میں اپنی قمست کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں وہیں یہ امکان ہے کہ انہیں شام یا الجیریا بھیج دیا جائے گا۔" اس درمیان محمود خلیل نے کہا کہ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو یہ خط اس لئے لکھا ہے تاکہ وہ متنبہ کر سکیں کہ لوگوں کے حقوق ویسے بھی خطرے میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ " مجھے امید ہے کہ یہ حقیقت آپ کو اشتعال انگیز کر دے گی کہ شرمناک انسانی قتل عام کے خلاف احتجاج کرنے کی انسان کی بنیادی فطرت کو نسل پرست پروپیگنڈے اور غیر واضح قوانین کے ذریعے دبایا جارہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس خط کے ذریعے آپ کو سمجھ آئے گا کہ "کچھ کیلئے جمہوریت" کا مطلب ہے کہ جمہوریت  باقی نہیں۔ مجھے امید ہے کہ تاخیر ہونے سے قبل آپ کارروائی کریں گے۔" 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK