پولیس نے بیکانیر بی جےپی اقلیتی مورچہ کے سابق صدر کو ’نقض امن‘ کی پاداش میں حراست میں لیا۔
EPAPER
Updated: April 29, 2024, 11:01 AM IST | Agency | Bikaner
پولیس نے بیکانیر بی جےپی اقلیتی مورچہ کے سابق صدر کو ’نقض امن‘ کی پاداش میں حراست میں لیا۔
وزیراعظم مودی کے مسلم مخالف بیان پر اعتراض کرنے کی پاداش میں پارٹی سے نکالے گئے بیکانیر بی جےپی اقلیتی مورچہ کے سابق صدر کو عثمان غنی کو راجستھان میں لوک سبھاالیکشن مکمل ہونے کےبعد پولیس نے ’نقض امن‘ کی پاداش میں گرفتار کرلیاہے۔
پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ صبح کو وہ ایک معاملے میں مکتا پرساد پولیس اسٹیشن گئے تھے جہاں ان کی افسروں سے کہاسنی ہوگئی تھی۔ پولیس کا الزام ہے کہ پولیس نے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر عثمان غنی نے اسے بڑھا دیا اس لئے انہیں ’نقض امن‘ کی پاداش میں گرفتار کیاگیاہے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم نے بانسواڑہ میں بی جےپی کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کیلئے ’درانداز‘ اور ’زیادہ بچے پیدا کرنے والے‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ہندوؤں کو ڈرایاتھا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آگئی تو وہ دراندازوں اور زیادہ بچے پیدا کرنےوالوں میں دولت تقسیم کردے گی۔ عثمان غنی نے اس پر اعتراض کی جرأت کی تھی اور کہا تھا کہ بی جے پی صرف نریندر مودی کی پارٹی نہیں ہے بلکہ ’’ہم جیسے کارکنوں کی بھی ہے۔ ‘‘انہونے متنبہ بھی کیا تھا کہ ’’پارلیمانی الیکشن میں راجستھان میں پارٹی ۲۵؍ میں سے ۳؍ سے ۴؍ سیٹیں ہار رہی ہے۔ ‘‘ انہوں نےبطور خاص چورو اور باڑمیر میں کانٹے کی ٹکر کا حوالہ دیاتھا۔
یہ بھی پڑھئے: ’’بی جے پی کا ۴۰۰؍ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ محض جملہ بازی ہے ‘‘
عثمان غنی نے وزیراعظم کے بیان پر اعتراض کرتےہوئے یہ بھی کہاتھا کہ ’’ہم جیسے سیکڑوں مسلمان بی جےپی سے جڑے ہوئے ہیں، جب ہم ووٹ مانگنے جاتے ہیں تو مسلمان ہم سے سوال کرتے ہیں، نریندر مودی کے بیانوں سے اور مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ انہیں خط لکھ کر اپیل کروں کہ وہ ایسے بیان دینے سے گریز کریں۔ ‘‘ اس کے بعد انہیں پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں ۶؍ سال کیلئے بی جےپی سے نکال دیا گیا۔ عثمان غنی بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی سے وابستہ رہنے کے بعد ۲۰۰۵ء میں بی جےپی میں شامل ہوئے تھے۔ وہ بیکانیر بی جےپی اقلیتی مورچہ کا صدر بننے سے قبل پارٹی کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔