Updated: August 27, 2024, 11:11 AM IST
| Miami
ونیزویلا کی انتخابی کائونسل کے ایک افسر کی جانب سےکے صدارتی انتخاب میں مبینہ بد عنوانی کا الزام عائد کیا گیا ہے، اپنے ایک طویل مکتوب میں افسر نے کئی شکوک ظاہر کئے ہیں جن کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس انتخاب میں شفافیت عنقا تھی،اور عجلت میں مدورو کو فاتح قرار دے دیا گیا۔
جان کارلوس ڈیلپینو۔ تصویر: ایکس
ونیزویلا کے صدارتی انتخاب میں پانچ انتخابی افسروں میں سے ایک افسر نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھ کر اعلان کیا ہے کہ حالیہ صدارتی انتخاب میں جس میں نکولس مدورو کو فاتح قرار دیا گیا ہے شفافیت اور دیانتداری کا شدید فقدان تھا، اس بات کا خدشہ بیرونی ممالک کی حکومتوں نے بھی ظاہر کیا تھا۔ جان کارلوس ڈیلپینو قومی انتخابی کائونسل کے ان پانچ افسران میں سے ایک ہیں جن کے زیر نگرانی یہ انتخاب منعقد کئے گئے تھے، یہ وہ واحد افسر تھے جنہوں نے انتخاب کے دوران اور انتخاب سے پہلے مدورو حکومت سے اختلاف ظاہر کیا تھا۔
اپنے خط میں انہوں نے۲۸؍ جولائی کو ہونے والےصدارتی انتخاب سے پہلے اور دوران انتخاب ہونے والی مبینہ بے قاعدگی کو مفصل انداز میں درج کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح الیکٹرونک مشین کو دھیما کر دیا گیا ،اور ساتھ ہی حزب اختلاف کے رضاکاروں کو ان مراکز سے دور کر دیا گیاجو انتخابی ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ ڈیلپینونے مزید کہا کہ ان تک یہ شکایت پہنچی تھی کہ انتخابی پلیٹ فارم کو ہیک کر لیا گیا جس کی وجہ سے محض ۵۸؍ فیصد نتائج ہی جمع کئے جاسکے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب انتخابی کائونسل کے صدر جو بر سر اقتدار حکومت کے وفادار تھے انہوں نے آدھی رات کو پریس کانفرنس کرکے مدورو کی فتح کا اعلان کیا تو ڈیلپینونےووٹوں کی گنتی اور نتائج کے اعلان کے وقت غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا۔ ڈیلپینو نے آگے لکھا کہ انہیں افسوس ہے کہ یہ نتائج ونیزویلا کے عوام کی رائے کی عکاسی نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ ’’ یہ نتائج ہمارے اختلافات کو ختم نہیں کرتے اور نہ ہی قومی یکجہتی کو فروغ دیتے ہیں ، اس کی بجائے یہ ونیزویلا کے عوام اور بین الاقوامی برادری کے ذہنوں میں شکوک کو ابھارتے ہیں۔ ‘‘
ڈیلپینو جو ایک انتخابی افسر ہیں روائتی حریف پارٹیوں کے قریب رہے ہیں۔مدورو حکومت کے ذریعے کئی افسران کو برطرف کرنے کے نتیجے میں انہیں اس عہدے پر فائز کیا گیاتھا۔ان کا یہ خط ایسے وقت میں منظر عام پر آیا جب مدورو کو ایک ملین سے زیادہ ووٹوں سے فاتح قرار دیا گیا، حالانکہ ان نتائج پر امریکہ، یورپی یونین کے ساتھ خود بائیں بازو کے اتحادی برازیل، کولمبیا اور میکسکو نے بھی شکوک کا اظہار کیا، اور تمام انتخابی ریکارڈ جاری کرنے کا مطالبہ کیا جو ان الزامات کی تائید کرتے ہیں۔ دریں اثناء حزب اختلاف نے ۸۰؍ فیصد ووٹنگ مشینوں کے اعداد شمار پیش کئے جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ تصدیق شدہ ہیں،ان کے مطابق حزب اختلاف کے امیدوار ایڈمونڈو گونزالس نے ایک کے مقابلے ۲؍ سے یہ انتخاب جیت لیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ملک کی سپریم کورٹ نے انتخابی نتائج کی توثیق کر دی اور حزب اختلاف کے پیش کردہ اعداد و شمار کو جعلی قراردیا۔اٹارنی جنرل تاریک ولیم ساب نےملک میں افرا تفری پھیلانے کا کوشش کی مجرمانہ تحقیق کا حکم دیا۔ جبکہ گونزالس نے کہا کہ اس حکم کو ماننے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ ان کا آئینی حق ہے اور وہ فقط عوام کے سامنےجوابدہ ہیں۔انہوں نے ایک بار پھر مدورو کو۳۰؍ ہزار مشینوں کے سارے نتائج عوام کے سامنے لانے کی بات دہرائی، تاکہ نتائج کی آزادانہ طور پر تصدیق کی جا سکے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں بات کہی کہ ’’ ووٹنگ مشین کے نتائج سامنے لانا ہی امن کا ضامن ہے۔‘‘
انتخابی نتائج کے بعدحکومت مخالف مظاہروں میں ۲۰۰۰؍ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جس کے بعد حزب اختلاف کے لیڈر روپوش ہیں۔ نیو یارک ٹائمس کو دئے گئے ایک انٹر ویو میں ڈیلپینو نے کہا کہ انہیں خود بھی روپوش ہونا پڑا، ان کے خط میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ کس طرح انتخابی کائونسل نے انتخاب سے پہلے کسی بھی طرح کی میٹنگ نہیں بلائی جس میں کوئی ضابطہ طے کیا جا سکتا تھا، جس کا پابند انتخابی کارکنوں ، بین الاقوامی مشاہدین اور بیرون ملک مقیم ونیزویلا کے عوام کو بنایا جا تا۔