• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اکولہ میں پھر تشدد ، شرپسندوں کی بھیڑ کا مسلم بزرگ پر حملہ

Updated: October 10, 2024, 10:25 PM IST | Ali Imran | Akola

جس کرن ساہو پر فساد پھیلانے کا الزام ہے وہ خود مورچہ لے کر پولیس اسٹیشن پہنچا،واپسی میں پھر توڑ پھوڑ کی، بزرگ شخص کو مارا پیٹا، پولیس نے گرفتار کیا ، فوراً ضمانت بھی مل گئی

A massive police arrangement has been made in Akola
اکولہ میں بڑے پیمانے پر پولیس بندوبست کیا گیا ہے

 ودربھ کے شہر اکولہ میں بدھ کی شام ایک بار پھر تشدد پھوٹ پڑا۔  اس بار بی جے پی کے شر پسند لیڈر کرن ساہو کے حامیوں نے پرانا شہر پولیس اسٹیشن تک مورچہ نکالا اور ان پر کارروائی نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ واپس لوٹتے وقت ان لوگوں نے علاقے میں توڑ پھوڑ کی اور ایک بزرگ کو نشانہ بنایا جنہیں پولیس نے بچالیا لیکن انہیں گہرے زخم آئے ہیں۔ 
 یاد رہے کہ گزشتہ پیر کو اکولہ کے جو نا (پرانا) شہر    علاقے میں  آٹو رکشا سے دھکا لگ جانے کو بہانہ بنا کر فساد بھڑکانے کی کوشش کی گئی تھی۔ پولیس نے اس معاملے میں  ۲۱؍افراد کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس پر الزام تھا کہ اس نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوںکو گرفتار کیا ہے اور گھروں کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئی ،  خواتین کی جانب سے مخالفت کرنے پر ان پر بھی ہاتھ اٹھایا گیا۔ اسی بات کی شکایت کرنے مسلم خواتین کا ایک مورچہ منگل کی شام پرانا شہر پولیس اسٹیشن کے انچارج نتن لیہور سے ملنے گیا تھا ۔ انہیں میمورنڈم دے کر مطالبہ کیا گیا تھا کہ پولیس بےجا گرفتاریاں بند کرے اور  اصل قصور وار کرن ساہو کو گرفتار کرے۔ مسلم خواتین کا مورچہ دیکھ کر سکل ہندو سماج کے شرپسند بوکھلا گئے۔ انہوں نے   بدھ کی شام  ایک  بڑا سا مورچہ نکالا جس میں بڑی تعداد میں خواتین بھی تھیں۔ یہ لوگ نعرے لگاتے ہوئے پرانا شہر پولیس اسٹیشن پہنچے اور انہوں نے بھی انسپکٹر نتن لیہور کو ایک میمورنڈم دیا ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کرن ساہو کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے وہ بے قصور ہے۔  ان لوگوں کاکہنا تھا کہ مسلم  خواتین نے جو تحریری شکایت پولیس کو دی ہے وہ غلط ہے۔ 
’’پاکستان جائو یا قبرستان ‘‘
   کرن ساہو جو خود ملزم ہے اس مورچے کی قیادت کر رہا تھا۔ یہ مورچہ پولیس کو اپنا میمورنڈم  دے کر واپس لوٹ رہا تھا کہ اس نے  حمزہ پلاٹ علاقے سے گزرتے ہوئے دوبارہ توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ ان کی نظر  راستے میں ایک بزرگ ضمیر عمر شیخ پر پڑی جو اپنے کھیت جارہے تھے۔ شر پسندوں نے’’ پاکستان جاؤ یا قبرستان‘‘ کہتے ہوئے انہیں پیٹا، ڈاڑھی ٹوپی کے تعلق سے نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ ساتھ ہی ان کی بائیک کو نقصان پہنچایا۔  پولیس کی بر وقت مداخلت سے بزرگ شیخ ضمیر کی جان تو بچ گئی لیکن انہیں گہرے  زخم آئے۔ زخمی حالت میںانہیں  سرکاری اسپتال میں داخل کیا گیا ۔ اس کے بعد پولیس نے شر پسندوںکے خلاف معاملہ درج کیا۔ 
 پولیس کی کارروائی 
  پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مورچہ جس میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے  تھےبغیر اجازت نکالا گیا تھا۔اس معاملے میں جونا (پرانا)  شہر پولیس نے کرن ساہو، سونو ساہو، راج یادو، گجو  میکانک اور گونجن پہلوان کے علاوہ دیگر ۱۰؍ افراد کے خلاف دفعہ ۱۸۹؍ (۲)، ۱۹۱ ؍(۲) ، ۱۹۰؍ (۲) ۱۹۶؍(۱) ، ۲۹۶؍ ۱۱۸؍(۱)  کے تحت معاملہ درج کیا ۔ اس  میں بغیر اجازت مورچہ نکالنے پر کرن ساہو اور دیگر لوگوں کے خلاف دفعہ ۲۲۱؍ اور ۲۲۳؍  آئی پی سی نمبر ۱۳۵؍ کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔
 کرن ساہو کی گرفتاری ہوتے ہی ضمانت؟
  اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے ماخوذ کلیدی ملزم کرن ساہو سمیت دیگر ۴؍ملزمین کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔  انہیں عدالت میں پیش ہوتے ہی ضمانت مل گئی جبکہ دیگر نوجوان جو  پیر اور منگل کو جیل میں ڈالے گئے تھے ان میں سے کچھ اب بھی جیل میں ہیں۔ بلکہ  ۷؍اکتوبر کو ہوئے تشدد کے معاملے میں ملزمین کی گرفتاریوں کا سلسلہ اب بھی  جاری ہے۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں   ۲۱؍ مسلم نوجوانوں کو ملزم بنایا گیا تھا جن میں سے ۱۷؍ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سے ۱۲؍ کو اسی روز ضمانت مل گئی تھی جبکہ ۵؍ کو  پولیس تحویل میں بھیج دیا گیا تھا۔   ان میں سے  ۲؍ کو  جنہیں ایف آئی آر نمبر ۵۳۸  اور ۵۳۹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا  جمعرات کے روز ضمانت مل گئی ۔ ان کے نام علی عباس اور  شیخ جی ہیں۔ اب ۳؍ مسلم نوجوان  جیل میں ہیں۔  اُ دھر دوسرے فریق یعنی ہندو گروہ  میں سے ۶؍ افراد کو ملزم بنایا گیا تھا جن میں سے ۵؍ کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ  ایک فرار ہے۔ گرفتار کئے گئے ۵؍ لوگوںکو ضمانت مل چکی ہے۔  فی الحال اکولہ میں پولیس بندوبست سخت ہے ۔ جگہ جگہ پولیس  نظر آ رہی ہے۔ 

akola muslim Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK