• Thu, 07 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وقف بل پر شدید احتجاج، مودی سرکار پر سنگین الزامات

Updated: August 09, 2024, 12:36 PM IST | Ahmadullah Siddiqui/ Inquilab News Network | New Delhi

متعدد اعتراضات کے بعد وزیرِ اقلیتی امور کرن رجیجو کے پیش کردہ بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا جس کی حکومت نے رضا مندی ظاہر کی ہے۔

Union Minister for Minority Affairs Kiran Rijiju presenting the Waqf Amendment Bill in the Lok Sabha. Photo: PTI
مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے۔ تصویر: پی ٹی آئی

مرکزی حکومت نے اپوزیشن کے سخت احتجاج اور ملک کے مسلمانوں کی شدید ناراضگی کے باوجود وقف بورڈ کے اختیارات کو ختم کرنے والے وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کر دیا، جس میں ۴۰؍ترامیم کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے بل پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بل کے ذریعہ کسی مذہبی ادارے میں مداخلت کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ذریعہ آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ بل میں کئی قابل اعتراض باتوں کے علاوہ وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرکے کلکٹر کو اختیارات دئیے گئے ہیں جو وقف کی ملکیت کا فیصلہ کریں گے اور اس طرح سے وقف ٹربیونل بھی ختم ہوجائےگا جس کا اوقاف کی اراضی کے سلسلہ میں کوئی بھی فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔ بل میںوقف بورڈ کی ساخت میں تبدیلی کرتے ہوئے خواتین اوراوبی سی کو نمائندگی دینے کی بھی تجویز ہے۔ مرکزی وزیر کرن  رجیجو نے ۱۹۲۳ء میں بنائے گئے مسلمان وقف ایکٹ کو منسوخ کرنے کیلئے بھی ایک بل پیش کیا ہے۔ حکومت نےوقف ایکٹ  میں  ترمیم کرکے اس کا نام یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، ایمپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ۱۹۹۵ء رکھا ہے۔
اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں اس ترمیمی بل کی سخت مخالفت کرتےہوئے اس کومذہبی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا۔ کانگریس لیڈروں کے سی وینوگوپال،گورو گوگوئی اور عمران مسعود نےبل پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ کے سی وینوگوپال نے بل پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اس کو ملک میں  پولرائزیشن کی کوشش اور وفاقی ڈھانچہ پر حملہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل مذہب پر عمل پیرا ہونے کے بنیادی حق پر حملہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  وقف کے معاملات ریاستوں کے ذریعے نپٹائے جا رہے ہیں لیکن مرکز اب اس اختیار کو بھی ہتھیانے کی کوشش کر رہا ہے۔اس بل کی متعدد شقیں نہایت سخت ہیں اور ان کی سیکولر جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوںنے اس کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
  عمران مسعود نے کہا کہ اس بل کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہاہے،ہم آئین کی قسم کھاکر پارلیمنٹ میں آئے ہیں  لیکن اسی آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ گورو گوگوئی نے اس  بل کو مذہب اور عقیدہ سے وابستہ مسئلہ قرار دے کراس میں عجلت پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نازک معاملہ ہے۔ یہ آئین کی کئی شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی  حکومت جو آئین بدلنا چاہتی ہے، کے اس بل پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کو فوری طور پر یہ بل واپس لینا چاہئے۔ سماج پارٹی کے رکن محب اللہ ندوی نے بھی سوال اٹھاتے ہوئے چاردھام اور گرودوارہ پربندھک کمیٹی کی مثال دی اور کہاکہ جب اس میں  مسلمانوں  کی نمائندگی نہیں  تو وقف میں دیگر مذاہب کے لوگوں  کی نمائندگی کا کیا مطلب ہے؟ 
ڈی ایم کے لیڈر کنی موزی نے اس بل کو مکمل طور پر ناانصافی کا مظہر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کلکٹر اور ان کے اوپر ایک اور اتھاریٹی فیصلہ کرے گی کہ یہ جائیداد حکومت کی ہے یا وقف بورڈ کی۔ یہ بل اس ہندوستان کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دے گا جس کا خواب ہمارے آباءواجداد نے دیکھا تھا۔ 
  این سی پی لیڈر سپریہ سلے نے بھی اس بل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اس کو اسٹینڈنگ کمیٹی میں  بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا بل جو ملک میں ہنگامہ کھڑا کردے اور جس کی وجہ سے تمام طبقات میں تشویش پائی جائے ہمیں ایسے بل کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کو اس پر مزید غور کرنا چاہئے یا پھر اسے پارلیمانی کمیٹی میں بھیج دینا چاہئے۔ 
  اوقاف کے تعلق سے ملک کے مسلمانوں  کے جذبات اور ان کے آئینی حقوق کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے جنتادل یو اور ٹی ڈی پی نے اس بل کی حمایت کی۔ جنتادل یو کے لیڈر للن سنگھ نے دعویٰ کیا کہ یہ بل مسلم مخالف نہیں۔ للن سنگھ نے بل پر اپوزیشن کے اصل اعتراض سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے ۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کا ذکر کیا۔ للن سنگھ نے دعویٰ کیا کہ حکومت کو قانون بنانے کا حق ہے اور اس سے مساجد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی۔ انہوں نے وقف بورڈ کو بے کنٹرول بھی بتایا۔ ٹی ایم سی کے رکن پارلیمنٹ سدیپ بندوپادھیائے نے کہا کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل ۱۴؍ کے خلاف ہے۔ میرے علاقے کے بہت سے مسلمان علماء نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 
مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اس پر سب سے زیادہ احتجاج کیا اور طویل اعتراضات پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان کے پاس وقف ایکٹ میں ترمیم کا اختیار ہی نہیں ہے۔ یہ بل آئین کے آرٹیکل ۱۴، ۱۵؍ اور ۲۵؍ کی خلاف ورزی ہے۔ اسدالدین اویسی نے کہا کہ یہ بل آئین کے ڈھانچے پر حملہ ہے۔ اگر کوئی ہندو چاہے تو اپنی تمام جائیداد اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو دے سکتا ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے میں صرف ایک تہائی جائیداولاد کو دے سکتا ہوں۔ میں اللہ کے نام پر جائیداد کا عطیہ نہیں کر سکتا، کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ پانچ سال سے اسلام پر عمل کرنے والا ہی وقف کرسکتا ہے ۔ بل کا حوالہ دیتے ہوئے اویسی نے کہا کہ بل میں صرف پانچ سال تک اسلام کی پیروی کرنے والا ہی اپنی جائیداد وقف بورڈ کو عطیہ کرسکتا ہے۔ ایسے میں کون فیصلہ کرے گا کہ کون پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہے؟ اگر کسی نے نیا نیا مذہب تبدیل کیا ہے تو اب اسے وقف کرنے سے پہلے پانچ سال انتظار کرنا ہوگا۔ کیا یہ مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ ہندو کمیٹیوں اور سکھ گوردوارہ کے منتظمین کے لئے ایسا کوئی اصول نہیں ہے۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ اگر ضلعی افسر مسجد کو سرکاری اراضی میں تبدیل کرنے کا کہے اور ایسا نہ کیا جائے تو اس کیلئے سزا کا انتظام ہے۔ اویسی نے مزید کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ وقف بورڈ میں خواتین کو ممبر بنایا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت بلقیس بانو اور ذکیہ جعفری کو اپنا ممبر بنائے گی۔ آپ یہ بل تقسیم کرنے کیلئے لا رہے ہیں۔ یہ بل اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت مسلمانوں کی دشمن ہے۔ 
 سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اکھلیش یادو نے کہا کہ یہ بل جان بوجھ کر لایا گیا ہے۔ بی جے پی اپنے مایوس اور مایوس چند کٹر حامیوں کو مطمئن کرنے کے لئے یہ بل لائی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کا کیا جواز ہے؟ اسپیکر اوم برلا کے بارے میں اکھلیش نے کہا کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ جمہوریت کے جج ہیں۔ سنا ہے آپ سے بھی کچھ حقوق چھینے جا رہے ہیں جس کے لئے اب ہمیں لڑنا پڑے گا۔ جب سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اکھلیش یادو نے کہا کہ اسپیکر کا حق چھینا جا رہا ہے تو مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ناراض ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر کے حقوق صرف اپوزیشن کے نہیں پورے ایوان کے ہیں۔ آپ اس طرح بات نہیں کر سکتے۔ آپ اسپیکر کے اختیار کے محافظ نہیں ہیں۔ اس دوران ایوان میں کافی ہنگامہ ہوا۔ اسپیکر نے کہا کہ چیئر کے تعلق سے کوئی تبصرہ نہ کیا جائے۔  
ان شدید اعتراضات کے بعد اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ میں اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے تمام سوالوں کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ ایوان میں بل پیش کرنے کی اہلیت کے سوال پر، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس بل سے کسی مذہبی ادارے میں کوئی دخل نہیں دیا جارہا اور نہ آئین کے کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ کرن رجیجو نے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ آرٹیکل ۲۵؍ اور ۲۶؍کے تحت نہیں آتا ہے۔ یہ بل ان لوگوں کو حقوق دینے کے لئے لایا گیا ہے جنہیں حق نہیں ملا ہے۔ یہ بل نظر انداز کئے جانے والے لوگوں کو جگہ دینے کے لئے لایا گیا ہے۔ اس دوران کرن رجیجو نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا۔ اس جواب کے بعد بھی اپوزیشن کا اعتراض برقرار رہا جس کے بعد حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اس بل پر مزید غور کے لئے اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا۔ اسپیکر اوم برلا یہ کمیٹی جلد بنائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK