• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وشال گڑھ تشدد: فسادیوں کو فوراً گرفتار کرنے کا مطالبہ

Updated: July 21, 2024, 10:28 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

ممبئی امن کمیٹی کے دفتر میںمیٹنگ کا انعقادکیا گیا ۔اس تشدد کوملکی سطح کا موضوع بنانے کا مشورہ۔ ڈیڑھ دو سال قبل سے ہی منصوبہ بندی کی جارہی تھی جس پرکلکٹر نے خاموشی برتی۔

Advocate Satish Talikar expressed his thoughts in the meeting held at the office of the Mumbai Peace Committee in the context of Vishalgarh and the situation in the country. Photo: INN
ممبئی امن کمیٹی کےدفتر میں وشال گڑھ اور ملک کے حالات کےتناظر میںمنعقدہ میٹنگ میںایڈوکیٹ ستیش تلیکر اظہارخیال کرتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

کولہاپور کے وشال گڑھ اورگجاپور میں ہونیوالے تشدد ،مسجد اور مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنانے کے خلاف اور ملک کے موجودہ حالات میں جس طرح مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ روا رکھا گیا ہے اور خود حکومتیں اس میں شامل ہیں، اس ضمن میں ممبئی امن کمیٹی کے دفتر میں سنیچر کی شام کو ملّی تنظیموں کی مشترکہ میٹنگ بلائی گئی۔ میٹنگ کا مقصد باہمی صلاح ومشورہ کرنا اور اتفاق رائے سے ان حالات کے تئیں لائحۂ عمل طے کرکے اگلا قدم اٹھانا تھا۔ اس موقع پریہ بھی بتایا گیا کہ ملّی تنظیموں اور دیگر شخصیات پر مشتمل ایک ٹیم وشال گڑھ گئی ہوئی ہے ، وہ حالات کا جائزہ لے کر تفصیلات یکجا کررہی ہے۔ واپس لوٹنےکے بعد پریس کانفرنس کی جائے گی ۔میٹنگ میں تفصیلی گفتگو ایڈوکیٹ ستیش تلیکرنے کی۔ 
ڈیڑھ دو سال سےیہ باتیں چل رہی تھیں
 ایڈوکیٹ ستیش تلیکرنے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح کا تشدد رونما ہوا وہ انتہائی شرمناک ہے۔ تقسیم ہند کے وقت یا اس کے بعد بھی اس قسم کے حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے۔ کولہاپور ضلع میں پچھلے ڈیڑھ دو سال سے اس طرح کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’وشال گڑھ میں صوفی سنتوں کی درگاہیں ہیں۔ یہاں تلنگانہ، ودربھ اور دیگر علاقوں سے عقیدت مند زیارت کے لئے آتے ہیں، اس میں اکثریت ہندوؤں کی ہوتی ہے۔ قلعہ منہدم ہو چکا ہے، قلعے کو دیکھنے برائے نام لوگ آتے ہیں، اکثریت درگاہ کی زیارت کرنے والوں کی ہوتی ہے۔‘‘ 
ایڈوکیٹ ستیش تلیکر نےیہ بھی کہاکہ ’’یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ ڈیڑھ دو برس قبل سے کچھ ہندوؤں کا کہنا تھا کہ درگاہ بند ہونی چاہئے، بکروں کی بلی چڑھانے کاسلسلہ بھی بند ہونا چاہئے۔ مگر سب سے اہم یہ ہے کہ ہر کسی کو اپنا مذہب اختیار کرنے اوراس پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تکلیف د ہ ہے کہ جہاں امن وآشتی اورمیل جول سے رہنے کا یہ عالم رہا ہو کہ تقسیم ہند سے آج تک کبھی ایسا نہیں ہواتھا وہاں اس طرح کا شرمناک تشدد رونما ہوا، لوگوں کو اذیت دی گئی، مسجد کوشہید کیا گیا، خواتین اور بچوں کوزدوکوب کیا گیا، کئی ہوٹل، دکانیں اور گھروں کو توڑ دیا گیا۔ شر پسندوں نے مطالبہ کیا تھا کہ وشال گڑھ کی پہاڑیوں پر بسے تمام گھروں کو توڑا جائے، اگر یہ کا م حکومت نے انجام نہیں دیا تو ہم توڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اس سے کلکٹر کو بھی آگاہ کرایا گیا تھا لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی اوراتنے بڑے پیمانے پر تشدد رونما ہوا۔‘‘ 
 ایڈوکیٹ موصوف نے مزید کہاکہ ’’میں متاثرین کی ہرطرف سے قانونی مدد کو تیار ہوں اور یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جن کے مکانات توڑے گئے ہیں ان کے گھر بنائے جائیں ،متاثرین کی بھرپور مدد کی جائے اورخاطیوں کو فوراً گرفتار کیا جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے حاضرین کویہ مشورہ دیا کہ راہل گاندھی سے ملاقات کی جائے تاکہ قوت کے ساتھ اس تعلق سے آوا ز بلند کی جاسکے۔ انہوں نے مسلم مسائل کو اٹھانے اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بغیر فیس لئےاپنی خدمات مہیا کرانے کی یقین دہانی کروائی۔‘‘
وشال گڑھ تشدد ملکی پیمانے کا مسئلہ بنانے کا مشورہ   
 میٹنگ میں ایڈوکیٹ تلیکر نے یہ بھی مشورہ دیا کہ’’ وشال گڑھ تشدد محض کولہا پور تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک پیٹرن بنتا جارہا ہے، اسے اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے ملکی سطح کا موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اس مسئلے پر اسی انداز میں متحد ہوکر کام کیا جائے تاکہ شرپسندوں اور فرقہ پرست عناصر پر لگام لگ سکے اوریہ سلسلہ مستقل طور پررُک سکے۔‘‘ 
 میٹنگ میں مولانا محمودخان دریابادی، شاکر شیخ، ہمایوں شیخ، مولانا عبدالجلیل انصاری، مولانا اعجاز احمد کشمیری، فرید شیخ ، نعیم شیخ، عبیدالرحمٰن اور موجود تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK