Inquilab Logo Happiest Places to Work

وقف ترمیمی قانون کی وجہ سے ۲۵۶؍ تاریخی عمارتوں  پر وقف بورڈ کا دعویٰ ختم ہوجانےکا اندیشہ

Updated: April 16, 2025, 11:03 PM IST | New Delhi

نئے قانون میں ’’وقف بائی یوزر‘‘کی شق ختم کردینے کی وجہ سے وہ املاک جو بطور وقف استعمال تو ہوتی رہی ہیں مگر دستاویزی ثبوت نہیں ہیں، وقف بورڈ کے ہاتھوں سے نکل جائیں گی

Humayun`s Tomb is also among the buildings claimed by the Waqf Board as well as the Archaeological Department.
ہمایوں کا مقبرہ بھی اُن عمارتوں میں شامل ہے جن پر وقف بورڈ کے ساتھ ہی محکمہ آثار قدیمہ کا بھی دعویٰ ہے۔

حکومت کے ان دعوؤں کے برخلاف کہ وقف ترمیمی ایکٹ مسلمانوں کی بھلائی کیلئے لایاگیا ہے، محکمہ آثار قدیمہ کےایک افسر نے معروف اخبار ’’دینک بھاسکر‘‘ کے ساتھ گفتگو  میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملک کی ۲۵۶؍ تاریخی عمارتوں کاوقف بورڈ کے ہاتھ سے نکلنا تقریباً طے ہے۔ افسر کے مطابق ان میں  دہلی کی  اُگرَسین کی باؤڑی  اور  پرانا قلعہ، مہاراشٹر  کے  بلڈانہ  میں   فتح کھیڑا مسجد شامل ہے۔  بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق یہ تمام تاریخی عمارتیں محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی والی ’’محفوظ عمارتوں‘‘ میں شامل ہیں۔ افسر جس کا نام بھاسکر نے اپنی رپورٹ میں ظاہر نہیں کیاہے، نے بتایا کہ ان عمارتوں  پر مالکانہ حقوق کے تعلق سے وقف بورڈ نے بھی دعویٰ کررکھا ہے۔ ان عمارتوں  کے وقف کئے جانے کے دستاویز موجود نہیں ہیں، وقف بورڈ کے دعویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمان انہیں  طویل عرصہ تک بطور وقف استعمال کرتے رہے ہیں۔ ا س لئے سپریم کورٹ کے وضع کردہ ’’وقف  بائی یوز‘‘اصول کے تحت ان عمارتوں پربورڈ کا دعویٰ ہے۔ 
  واضح رہے کہ ’’وقف بائی یوزر‘‘ کی اصطلاح سپریم کورٹ نے ان املاک کیلئے استعمال کی ہے جن کے وقف کرنے کے دستاویز تو موجود نہیں ہیں مگر وہ  طویل عرصے سے بطور وقف استعمال ہورہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے وضع کردہ مذکورہ اصول کے تحت  ایسی املاک  جن میں اکثر قبرستان، مقبرہ اور مساجد آتی ہیں، کو وقف کی ملکیت تسلیم کیا جاتارہا ہے تاہم نئے قانون میں ’’وقف بائی یوزر‘‘ کے التزام کو ختم کردیاگیاہے۔ 
 نئے ’وقف ترمیمی ایکٹ‘‘ کے تحت جو ۸؍ اپریل کو نافذ کردیاگیا،وقف بورڈ کو آئندہ ۶؍ مہینوں میں اپنی تمام جائیدادوں  کی تفصیلات اور دستاویزات آن لائن  سینٹرل پورٹل پر اپ لوڈ کرنی ہیں۔ اگر’’ وقف بائی یوزر‘‘ والی املاک کے دستاویز نہیں ہوں گے، تو ان پر بورڈ کا دعویٰ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ وہ محکمہ آثار قدیمہ کی ملکیت میں چلی جائیں گی۔ پورٹل پر تفصیلات اپ لوڈ کرنے کیلئے ۶؍ مہینے کے بعد مزید۶؍ ماہ کی توسیع کی جاسکتی  ہے۔ یعنی زیادہ سے زیادہ ایک سال میں ایسی املاک  پر  وقف بورڈ کے تمام دعوے ختم ہو جائیں گے۔
 نئے قانون کے مطابق اگر آثار قدیمہ سے متعلق  ۱۹۰۴ء یا۱۹۵۸ء کے ترمیم شدہ  قانون  کے تحت عمارت قومی ورثہ  اور ’’محفوظ یادگار‘‘ قرار دی گئی کسی تاریخی عمارت کو  اگر وقف بورڈ نے محفوظ عمارت قراردیئے جانے  کے بعد اپنی جائیداد قرار دیا ہے، تو اسے محکمہ آثار قدیمہ  کے تحت ہی مانا جائے گا اور وقف بورڈ کا  اس پر دعویٰ ختم ہو جائے گا۔ہمایوں کا مقبرہ،موتی مسجد اور  اورنگ زیب کا مقبرہ بھی اُن عمارتوں میں شامل ہیں جن پر وقف بورڈ اور محکمہ آثار قدیمہ دونوں کا دعویٰ  ہے۔محکمہ آثار قدیمہ کی ویب سائٹ پر ایسی ۲۵۶؍ تاریخی عمارتیں ہیں جن پر بورڈ اور محکمہ دونوں کا دعویٰ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK