Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

پارلیمانی حلقوں کی مجوزہ حد بندی کیخلاف مرکز کو انتباہ

Updated: March 22, 2025, 11:15 PM IST | Chennai

’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ کی میٹنگ میں  ۱۴؍ پارٹیوں کی شرکت ،وزیراعظم سے ملاقات کافیصلہ، نئی حد بندی کیلئے آبادی کے بجائے کسی منصفانہ اصول کو اپنانے کا مطالبہ

MK Stalin with Telangana, Punjab and Kerala Chief Ministers Revanth Reddy, Bhagwant Mann and P Vijayan
ایم کے اسٹالن تلنگانہ، پنجاب اور کیرالا کے وزرائے اعلیٰ ریونت ریڈی، بھگونت مان اور پی وجین کے ساتھ

  پارلیمانی نشستوں کیلئے  انتخابی حلقوں کی مجوزہ نئی حد بندی کے خلاف ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ کی پہلی میٹنگ میں حکومت کو متنبہ کیاگیا کہ آبادی کی بنیاد پر نئی حد بندی قطعی نا قابل قبول ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے پارلیمنٹ میں اُن ریاستوں کی نمائندگی کا تناسب گھٹ جائے گا جنہوں  نے  آبادی پر کنٹرول سمیت دیگر محاذوں پربہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس بار پر زور دیتے ہوئے کہ  پارلیمانی حلقوں کی آبادی کی بنیاد پر نئے سرے سے مجوزہ حد بندی جنوبی ریاستوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہوگی، جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے مودی حکومت  سے مطالبہ کیا کہ  اس کو مزید ۲۵برسوں کیلئے ملتوی کردیا جائے۔ 
آبادی کی بنیاد پر حد بندی ناقابل قبول
 چنئی کے وزیراعلیٰ  اور ڈی ایم کے سربراہ ایم کے اسٹالن  کی قیادت میں شروع کی گئی اس مہم کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر آبادی کی بنیاد پر نئی حد بندی ہوتی ہے ، آبادی پر کنٹرول کی پالیسی پر عمل نہ کرنےوالی شمالی ہند کی ریاستیں فائدہ میں رہیں گی اور جنوبی ہند کی جن ریاستوں نے  سنجیدگی سے اس پالیسی پر عمل کرکے اپنی آبادی پر قابو پایا ہے ان کو نقصان اٹھانا پڑے۔    اسٹالن کی دعوت پر سنیچر کو ہونےوالی میٹنگ میں اسٹالن کے علاوہ  ۳؍ ریاستوں  کے وزرائے اعلیٰ کیرالا کے  پی  وجین، تلنگانہ کے  ریونت ریڈی اور پنجاب کے بھگو نت مان نے شرکت کی جبکہ  کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار  بھی موجود تھے۔  مجموعی طو رپر ۱۴؍ پارٹیوں  کے نمائندوں نے میٹنگ میں  شرکت کی۔ جن پارٹیوں  نے اسٹالن کے ذریعہ شروع کی گئی تحریک کی تائید کی  اور میٹنگ میں اپنےنمائندوں کو بھیجا ان میں   بھارتیہ راشٹریہ سمیتی ، اکالی دل اور بیجو جنتادل  شامل ہیں جو انڈیا اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔ان کے علاوہ میٹنگ میں عام آدمی پارٹی، کانگریس کے ساتھ ہی کیرالا کانگریس اور بائیں بازو کی پارٹیاں شریک تھیں۔حیرت انگیز طو رپر اس میٹنگ میں  پون کلیان کی جن سینا پارٹی بھی شامل تھی  جو بی جےپی کی اتحادی ہے۔     اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ’’آبادی کی بنیاد پر پارلیمانی حد بندی‘‘ کی مخالفت کی جائے گی اور ضرورت پڑی تو یہ لڑائی  عدالت میں بھی لڑی جائے گی۔اس ضمن میں وزیراعظم مودی سے پارلیمنٹ کے اسی سیشن میں ملاقات کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔   میٹنگ میں ’’انصاف پر مبنی  پارلیمانی حد بندی‘‘ کا مطالبہ کیا جائےگا   ۔ 
موجودہ آبادی کی بنیاد پر حد بندی  ناقابل قبول
  میٹنگ میں ڈی ایم کے سربراہ اور وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ ’’موجودہ یا اگلی مردم شماری  کی بنیاد پر  آبادی کے لحاظ سے پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی قطعی کچھ ریاستوں کو بری طرح  متاثر کرےگی۔ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ موجودہ آبادی کی بنیاد پر حد بندی قطعی ناقابل قبول ہوگی۔‘‘ انہوں نے سیاسی اور قانونی ایکشن پلان کیلئے  ابھی سے تیاری کرنے کی تجویز پیش کی اوراس کیلئے لیگل پینل بنانے کا بھی مشورہ دیا۔ 
 مجوزہ پارلیمانی حد بندی  بی جےپی کیلئے فائدہ مند
  کیرالا کے وزیراعلیٰ پی وجین نے متنبہ کیا کہ موجودہ  آبادی کے لحاظ سے نئی حد بندی سے شمالی ہند کی ان ریاستوں کی پارلیمانی سیٹوں میں اضافہ ہوگا جہاں بی جےپی  کادبدبہ ہے۔  انہوں  نے تشویش کااظہار کیا کہ ’’بی جے پی حکومت بغیر صلاح و مشورہ کے اس معاملے میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ‘‘ اسے ’’سیاسی مفادات سے متاثر اقدام‘‘ قرار دیتے ہوئے وجین نے کہا کہ ’’ اگر آبادی کے مطابق حد بندی ہوتی ہے تو شمالی ریاستوں کی سیٹوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگاجبکہ جنوبی ریاستوں کی سیٹیں  گھٹ  جائیں گی۔ یہ بی جے پی کے لیے فائدے کا معاملہ ہوگا، کیونکہ شمالی ریاستوں میں وہ مضبوط ہیں۔‘‘ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ  ریونت ریڈی  نے کہا کہ ’’ بی جے پی حد بندی کے ذریعہ  جنوبی ریاستوں کو سزا دینا چاہتی ہے۔   جنوبی ریاستیں آبادی کی بنیاد پر ہونے والی اس حد بندی کو قبول نہیں کر سکتیں۔ اس سے ہمیں سیاسی طور سے محدود کر دیا جائے گا۔ ‘‘

new delhi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK