• Sat, 15 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ ۵؍ ٹریلین کی معیشت تو ہم بن ہی جائیں گے ، اصل مسئلہ فی کس آمدنی کا ہے ‘‘

Updated: February 14, 2025, 10:55 PM IST | New Delhi

آزاد راجیہ سبھا رکن اور سینئر وکیل کپل سبل نے سرکار سے اس کے اگلے ۵؍ سال کا ویژن دریافت کیا اورتعلیم، صحت اور جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیا

Senior Advocate and MP Kapil Sibal speaking in Rajya Sabha
سینئر ایڈوکیٹ اور رکن پارلیمنٹ کپل سبل راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے

جب کوئی نئی حکومت اقتدار میں آتی ہے، تو فطری طور پر ملک  کے عوام اس سے توقعات وابستہ  کرتے ہیں کہ وہ اگلے پانچ سال کے  لئے اپنا ویژن پیش کرے لیکن یہ حکومت پہلے ہی دس سال گزار چکی ہے اور اس دوران اس کی کارکردگی سست اور غیر مستقل رہی ہے۔ ہمیں امید تھی کہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں ہمیں کچھ ویژن ملے گا کہ حکومت مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں، خاص طور پر یورپی طاقتوں کی تو آپ دیکھیں گے کہ جب صنعتی انقلاب آیا تو دو چیزیں ہوئیں ، ایک  یونیورسل ایجوکیشن عام ہوئی  اور دوسری ٹیکنالوجی کی ترقی ہوئی ۔ چین نے جب اپنی معیشت کو مضبوط کیا تو اس نے سب سے پہلے اپنے ہر بچے اور ہر نوجوان کی تعلیم کو یقینی بنایا لیکن آج تک  ہندوستان میں نہ تو مکمل تعلیم مفت کی گئی ہے اور نہ اسے معیاری بنایا گیا۔ اگر تعلیم اور مہارتوں پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی تو ہم کیسے عالمی معیشت میں مسابقت کر سکتے ہیں؟  
 آج دنیا میں اے آئی  اور جدید ٹیکنالوجی کی ایک نئی انقلابی لہر آ رہی ہے۔ حکومت نے اس کے لئے مختلف مراکز بنانے کا اعلان کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت سمجھتی ہے کہ اے آئی کیا ہے اور اس کا استعمال کیسے ہوگا؟ ایک طرف اگر ہم اے آئی کو اپناتے ہیں تو بے روزگاری بڑھ سکتی ہے، کیونکہ بہت سے نوکریاں ختم ہو جائیں گی دوسری طرف، اگر ہم اسےنظرانداز کرتے ہیں تو ہم عالمی سطح پر مسابقت  کا موقع کھو دیں گے۔ حکومت کے پاس اس چیلنج کا کوئی واضح حل نہیں ہے۔ ملک میںصحت عامہ کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ ۳۸؍ فیصدبچے پیدائشی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ ۲۱؍  فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں۔  یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اگر صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کی گئی تو ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے

  بجٹ میں صحت کے لیے صرف ۹؍ فیصد کااضافہ کیا گیا ہے  جو ناکافی ہے۔معاشی ترقی اور روزگارکی بات کروں تو وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہندوستان جلد ہی پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بن جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک پہلے ہی ۶؍ فیصد کی  شرح نموسے ترقی کر رہا ہے، چاہے حکومت کچھ کرے یا نہ کرے ہم وہاں تک چند برس میں پہنچ ہی جائیں گے لیکن  اصل سوال یہ ہے کہ ہم ۸؍ سے ۱۰؍ فیصد کی ترقی کیسے حاصل کریں گے ؟ کیونکہ اگر معیشت تیزی سے ترقی نہ کرے تو فی کس آمدنی میں اضافہ ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہم ترقی یافتہ بن سکیں گے ۔ فی کس آمدنی کی ضمن میںدیکھیں تو روس کی فی کس آمدنی ۱۴؍ ہزار ڈالرس، چین کی ۱۳؍ ہزار ڈالرس، برازیل کی ۱۱؍ ہزار ڈالرس لیکن ہندوستان کی صرف ۲؍ ہزار ۴۹۰؍ ڈالرس ہے ۔ اس سے یہ یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے  لئے بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے نہ کہ صرف  ٹریلین ڈالر اکانومی   جیسے نعروں کی۔   اگر ان محاذوں پر سرکار ناکام ہے تو  صنعت اور تحقیق کے میدان میں بھی بہت اچھے اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔  امریکہ ہر سال ۶۵۰؍ بلین ڈالرس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر خرچ کرتا ہے۔   چین  ۵۰۰؍بلین  خرچ کرتا  ہے جبکہ ہندوستان صرف ۵۰؍ بلین  خرچ کر رہا ہے۔  اگر ہم تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری نہیں کریں گے، تو ہم ٹیکنالوجی میں کبھی خودمختار نہیں بن سکیں گے۔ مثال کے طور پرموبائل فون کے زیادہ تر ہارڈویئر یورپی ممالک میں بنتے ہیں جبکہ ہم صرف سافٹ ویئر سلوشنز فراہم کرتے ہیں، جو بالآخر غیر ملکی کمپنیوں کے ہی کنٹرول میں چلا جاتا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں ۱۴۰؍ کروڑ عوام میں سے صرف  ۳ء۱۹؍کروڑ لوگ واقعی انکم ٹیکس  ادا کرتے ہیں لیکن انہیں ہی راحت دی جارہی ہے۔ بقیہ ۱۳۷؍ کروڑ لوگوںکے بارے میں یہ سرکار نہیں سوچ رہی ہے۔  آکسفیم  کی رپورٹ کے مطابق ملک کے غریب اور انتہائی غریب ۵۰؍لوگ  اپنی آمدنی کا سب سے زیادہ حصہ بالواسطہ ٹیکس میں ادا کرتے ہیں۔  غریب طبقہ  امیر طبقے کے مقابلے میں ۶؍گنا زیادہ ٹیکس  دیتا ہے، کیونکہ بالواسطہ ٹیکس زیادہ ترجی ایس ٹی اور دیگر سرکاری محصولات کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے۔   میری اپیل ہے کہ یہ لوٹ مار روکی جائے اور غریبوں کو راحت دی جائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK