Updated: November 09, 2024, 9:25 AM IST
| New Delhi
علیگ برادری کے ساتھ ساتھ مسلم نمائندہ افراد، سیاستداں، مفکرین نے اس فیصلے پر مسرت کا اظہار کیا۔ سبھی اقلیتی اداروں کو فائدہ پہنچنے کی امیدظاہر کی گئی اورکہا گیا کہ حتمی فیصلہ بھی اے ایم یو کے حق میںہوگا۔ساتھ ہی یہ بھی سوال بھی قائم کیا گیاکہ اگر اس کو آئینی بنچ مزید طول نہ دیتی تو بہتر ہوتا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر علیگ برادری نے مسرت کا اظہار کیا۔ تصویر: آئی این این
:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پرمسرت و اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ماہر قانون اور اے ایم یو کے سابق رجسٹرار پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے کہا کہ’’یہ عمومی طورسے اقلیتی حقوق اور خصوصی طور پر اے ایم یو کیلئے ایک بڑی فتح ہے۔‘‘
پروفیسر فیضان مصطفیٰ نےاے ایم یو کے اقلیتی ادارہ ہونے کے معاملے میں سپریم کورٹ کی سات رکنی بنچ کے فیصلے کو ’بہت ہی اچھا‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اے ایم یو اور ملک کے ہزاروں اقلیتی اداروں کیلئے اس سے بہتر فیصلہ نہیںہوسکتا تھا۔’انقلاب‘ کے نمائندہ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں صرف مذہبی اقلیتی ادارے نہیں ہیں، بلکہ بہت سے لسانی اقلیتی ادارے بھی ہیں جن میں بڑی تعداد ہندوؤں کے اداروں کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوبھی مرکز کے زیر انتظام کئی خطوں اور شمال مشرق کی متعدد ریاستوں میں مذہبی اقلیت ہیں۔ چانکیہ نیشنل لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان نے کہا کہ ۱۹۶۷ء میں سپریم کورٹ نے یونیورسٹی کے قیام کیلئے بنائے گئے قانون کی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا،اور اس بات کو نظرانداز کردیا تھا کہ ادارہ کس نے قائم کیا تھا۔
اے ایم یو ٹیچرس اسوسی ایشن (اے ایم یو ٹی اے) کے سیکریٹری محمد عبید صدیقی نے کہا کہ’’فیصلہ ان بنیادی اصولوں کی تصدیق کرتا ہے جن پر یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ تعلیمی عزائم کو پورا کرنے کیلئے ادارے کے قیام کےپس پشت سوچ کی تائید کرتا ہے۔‘‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر محمد وسیم علی نے کہا کہ، ’’ہمیں خوشی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ کیا، اس میں وقت ضرور لگا، مگر فیصلہ بالکل درست اور قابلِ تعریف ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فیصلے کا ہمیں مزید فائدہ ہوگا۔‘‘اے ایم یو کے پروفیسر محمد عاصم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا استقبال کیا اور کہا کہ’’یہ ایک لمبی قانونی لڑائی تھی، اس لئے ہم اس کیس کے لئے بہت محنت سے تیاری بھی کررہے تھے، ہم اس فیصلے کا استقبال کرتے ہیں اور اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔ ‘‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر اور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ زیڈ کے فیضان نے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تعلق سے سپریم کورٹ کے سات ججوں کی بنچ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اسے سیکولرزم، جمہوریت اور دستور ہند کی جیت سے تعبیر کیا ۔ انھوں نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ملت اسلامیہ خصوصاً پوری دنیا میں پھیلی ہوئی علیگ برادری کو مبارکباد پیش کی ۔
یونیورسٹی ھذٰا کے طلبہ بھی اس فیصلے سے مسرور ہیں،انہوں نے بھی اس فیصلے کو خوشی کے ساتھ سراہا۔قومی آواز کی ایک رپورٹ کے مطابق محمد صادق نامی طالب علم نے کہا، ’’ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمیں اس سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ حکومت صرف تفرقہ انگیز سیاست کر رہی ہے، لیکن ہمیں سپریم کورٹ سے ہمیشہ مثبت نتیجے کی امید تھی۔‘‘ ایک دیگر طالب علم نے اس فیصلے کو دستوری حق قرار دیتے ہوئے کہا، ’’ہمیں اپنے حق میں فیصلہ ملنے کی توقع تھی اور اب یہ فیصلہ ہماری توقعات کے مطابق آیا ہے۔‘‘
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’’یہ ملک میں مسلمانوں کیلئے ایک اہم دن ہے۔ اقلیتوں کے خود کو تعلیم دینے کے حق کو برقرار رکھا گیا ہے۔ میں آج اے ایم یو کے سبھی طلبہ اور اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘
سماج وادی پارٹی کے سینئر رکن راجیہ سبھا اور سابق مرکزی وزیر رام جی لال سمن نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی اقلیتی حیثیت کی بحالی کے لئے سپریم کورٹ کےجمعہ کو دیئے گئے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ یہ فیصلہ ابھی تک نامکمل ہے۔ ایک پریس ریلیز میں انہوں نے کہا کہ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کی بحالی کے لیے راجیہ سبھا میں پیش کیے گئے پرائیویٹ ممبر بل کو پاس کرانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
سابق رکن پارلیمنٹ اور کانگریس لیڈر میم افضل نے فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔انہوںنے کہا کہ حکومتوں کی طرف ناانصافی کا دورہ چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ دو فیصلے حکومتوں کے منہ پر زور دار طمانچے ہیں جن میں سے ایک میں یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے آئینی جواز کو برقرار رکھا گیا اور آج عدالت عظمیٰ نے عزیز پاشا مقدمہ کے بہانے سے اے ایم یو کو اقلیتی کردار سے محروم کرنے کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔
ناموردانشور پروفیسر اخترالواسع نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک شاندار فیصلہ ہے،لیکن آئینی بنچ کو ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے بارے میں اپنا فیصلہ سنانا چاہئے تھا۔ انہوںنے کہا کہ یہ کافی تذبذب کی بات ہے کہ آئینی بنچ نے اس معاملہ کو سپریم کورٹ کی ریگولر بنچ کے پاس بھیج دیا کہ وہ یہ طے کرے کہ آیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں۔انہوںنےسوال کیا کہ جب سپریم کورٹ میں ۷؍ رکنی بنچ کی اکثریت اقلیتی کردار پرمتفق تھی تو اس نے اس کو تین رکنی بنچ کے پاس کیوں بھیجا؟ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ سے اقلیتی ادارہ رہی اور بحیثیت اے ایم یو یونین جنرل سکریٹری کئی دفعہ وہ اس کیلئے جیل بھی جاچکے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ اگر اس کو آئینی بنچ مزید طول نہ دیتی تو بہتر ہوتا۔