• Sun, 26 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

شام میں تختہ پلٹ سے پڑوسی فکرمند، مغربی ممالک نے خیر مقدم کیا

Updated: December 09, 2024, 12:27 PM IST | Agency | Doha/Washington

قطر، سعودی عرب، اردن، مصر، عراق، ایران، ترکی اور روس کی جانب سے دوحہ فورم کےمشترکہ اعلامیہ میں شام کی موجودہ صورتحال کوعلاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کیلئےخطرناک قرار دیا گیا۔ جرمنی نے اسے شام کےعوام کیلئے راحت بتاتے ہوئے بنیادپرستی سے خبردار کیا۔ فرانس نے خیرمقدم کیا۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہمارا شام سے کچھ لینادینا نہیں۔ ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے.

The end of the regime of Syrian President Bashar al-Assad is being celebrated in the town of Majdal Shams in the Israeli-occupied Golan Heights. Photo: AP/PTI
اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے قصبے مجدالشمس میں شامی صدر بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کا جشن منایا جارہا ہے۔ تصویر: اے پی / پی ٹی آئی

شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد مختلف ممالک نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کچھ ممالک کو شام پر باغیوں کے قبضے پرتشویش ہے تو مغربی ممالک نے اس کا خیرمقدم کیا ہے لیکن انہیں بھی یہ اندیشہ ہے کہ کہیں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ واپس نہ آجائے۔ 
قطر میں ہونے والے دوحہ فورم کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کیلئےخطرناک ہے۔ قطر، سعودی عرب، اردن، مصر، عراق، ایران، ترکی اور روس کی جانب سے دوحہ فورم کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہےجس میں شام میں فوجی آپریشنز روکنے اور شہریوں کی حفاظت کیلئے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شامی باغیوں نے حمص پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے، حمص کی فوجی جیل سے ساڑھے تین ہزار سے زائد قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ 
 ایرانی چیف سفارت کار نے ترک وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ شام کو دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بننے دینے کیلئے تہران اور انقرہ کے درمیان معاہدے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے شام میں ’دہشت گرد تنظیموں ‘ پر اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام لگایا۔ تاہم ان کے ترک ہم منصب نے اس الزام کو مسترد کردیا۔ ایرانی سفارت کار نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شام کی خطرناک صورتحال خطے کے تمام ممالک کو متاثر کرے گی۔ اتوار کو اردن نے شام کے استحکام اور سلامتی کے تحفظ کی اہمیت کا اعادہ کیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق اردن نے مزید کہا ہے کہ خطے میں سلامتی کی حالت کو تقویت دینے پر کام جاری ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:کسانوں کا دہلی مارچ ایک بار پھر ملتوی

جرمنی کا ردعمل
اتوار کو فرانس کے صدرایمانوئل میکرون نے شام کے صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کی خبر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیرس مشرق وسطیٰ میں ہر ایک کی سلامتی کیلئے پرعزم رہے گا۔ میکرو نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’’میں شامی عوام، ان کے حوصلے اور صبر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میں ان کیلئے امن، آزادی اور اتحاد کی خواہش کرتا ہوں۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’فرانس مشرق وسطیٰ میں ہر ایک کی سلامتی کیلئے پرعزم رہے گا۔ ‘‘
فرانس نے خیرمقدم کیا
فرانس نے شام میں بشارالاسد کےاقتدار کے خاتمے کی خبر کا خیر مقدم کرتے ہوئے ملک میں لڑائی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں پرامن سیاسی منتقلی پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ’’اب شام میں اتحاد کا وقت ہے۔ ‘‘بیان میں شام کیلئے آنے والے دور میں ’انتہا پسندی‘ کے خلاف بھی خبردار کیا گیا ہے۔ 
شام میں تمام اپوزیشن گروپوں کے ساتھ رابطہ میں ہے: ماسکو
تاس نیوز ایجنسی کے مطابق روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ شام میں فوجی اڈوں پر فوجی اہلکار ہائی الرٹ پرہیں۔ فی الحال ان کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ’تاس ‘ نے پہلے اطلاع دی تھی کہ شام میں روسی سفارتکار محفوظ ہیں۔ ماسکو، جوبشار الاسد کا ایک کٹر اتحادی ہے، نے۲۰۱۵ء میں بشارالاسد کے حق میں تنازع میں مداخلت کی تھی۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ ماسکو شام کے تمام اپوزیشن گروپوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ تمام فریقوں پر تشدد سے باز رہنے پر زور دیتا ہے۔ 
’’شام سے امریکہ کا کچھ لینا دینا نہیں ‘‘
 شام میں بشار الاسد کے۲۴؍سالہ دورِ اقتدار کے خاتمے اور باغیوں کے اقتدار سنبھالنے پر نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو شام کے معاملے میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ 
ایک عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بیان میں ڈونالڈ ٹرمپ نے شام کی موجودہ صورت حال پر کہا کہ ہمارا شام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے موجودہ صدر جوبائیڈن کو مشورہ دیا کہ امریکہ کو شام کے معاملے پر مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ 
واضح رہے کہ اپنے سابقہ دوراقتدار میں ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان، شام، عراق اور دیگر ممالک سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا آغاز کیا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کسی اور کی جنگ میں شامل ہونے کا خمیازہ امریکیوں سے نفرت، قاتلانہ حملوں اور معیشت پر بھاری بوجھ کی صورت میں نکلتا ہے۔ 
’’لاکھوں شامی عبوری انتظامات کے خواہاں ہیں ‘‘
شام کیلئے اقوام متحدہ کےخصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن نے اتوار کو اپنے بیان میں تمام شامیوں پر زور دیا کہ وہ بات چیت، اتحاد اور بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے احترام کو ترجیح دیں کیونکہ وہ اپنے معاشرے کی تعمیرِ نو کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک مستحکم اور جامع مستقبل کی جانب سفر میں شامی عوام کی حمایت کیلئے تیار ہیں۔ 
بائیڈن انتظامیہ کی شام میں پیش رفت پر گہری نظر 
دریں اثناءوہائٹ ہاؤس نے اتوار کو اعلان کیا کہ امریکی صدر جوبائیڈن اور ان کی ٹیم شام میں ہونے والے غیر معمولی واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اس سے قبل وہائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ شام میں امریکہ کی موجودہ ترجیحات اس بات کو یقینی بنانا ہیں کہ موجودہ تنازع داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کی حوصلہ افزائی نہ کرے یا انسانی تباہی کا باعث نہ بنے۔ 
قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے تنازع کا دائرہ پھیلنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شام کو ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ داعش کا دوبارہ سرگرم ہونے خطرات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شام میں طویل خانہ جنگی کے بدترین مراحل کے دوران ہم نے منظرعام پر ’داعش‘ کو ابھرتے دیکھا۔ انہوں نے کیلیفورنیا کی سمی ویلی میں ریگن نیشنل ڈیفنس فورم کے زیر انتظام ایک کانفرنس میں مزید کہا کہ انہوں نے شام کی صورت حال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ سلیوان نے اس بات پر زور دیا کہ بنیادی ترجیح اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ شام میں لڑائی داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کا باعث نہ بنے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم خود اقدامات کریں گے۔ براہ راست اور شامی ڈیموکریٹک فورسیز کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ داعش دوبارہ نہیں ابھرے گی۔ 
سلیوان نے کہا کہ سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کام کر رہی ہے کہ امریکی اتحادی اور خطے میں وہ ممالک جنہیں شام کے بالواسطہ نتائج کا سامنا ہے ایک مضبوط اور محفوظ پوزیشن میں رہیں۔ ہم ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK