جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر نے بے گناہ قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کرنے ، فرقہ پرستی کا شکار اور فساد زدہ علاقوں کے متاثرین کی راحت رسانی کے علاوہ تنظیم کی دیگر خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔
EPAPER
Updated: March 29, 2025, 9:39 AM IST | Nadeem Asran | Mumbai
جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر نے بے گناہ قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کرنے ، فرقہ پرستی کا شکار اور فساد زدہ علاقوں کے متاثرین کی راحت رسانی کے علاوہ تنظیم کی دیگر خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔
ملک اور مختلف ریاستوں میں ناگفتہ با حالات کے باوجود بے گناہ قیدیوں کو دی جانے والی قانونی مدد کے علاوہ فساد زدگان اور فرقہ پرستی کا شکار متاثرین کیلئے راحت ، باز آبادی کاری اور ریلیف کی تقسیم کو مولانا محمود اسعد مدنی( صدر جمعیۃ علماء ہند) کی سربراہی میں ہمیشہ اولیت اور فوقیت دی گئی ہے ۔انقلاب سے ہونے والی بات چیت کے دوران مہاراشٹر جمعیۃ علماء کے صدر مولانا حافظ ندیم صدیقی نے بے گناہ قیدیوں کو قانونی مدد فراہم کرنے ، فرقہ پرستی کا شکار اور فساد زدہ علاقوں کے متاثرین کو دی جانے والی راحت سے لے کر دینی اور عصری تعلیمی بیداری مہم اور تنظیم کی دیگر خدمات پر روشنی ڈالی ۔اس تعلق سے ہوئی بات چیت قارئین انقلاب کی خدمت میں پیش ہے۔
س: جمعیۃ نے مختلف سماجی، فلاحی اور رفاہی خدمات کے ساتھ مختلف حساس کیسوں میں ملوث محروسین کو قانونی مدد فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ تنظیم کو کس طرح کے مسائل در پیش ہیں؟
ج: مجھے لگتا ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہمیشہ مسلمانوں کو ہراساں کیا گیا اور مختلف جھوٹے مجرمانہ اور دہشت گردانہ معاملات میں پھنسایا اورگرفتار کیا جاتا رہا ۔ یہی نہیں حکومت کی پشت پناہی میں شر پسندوں کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ اب اس میں مزید شدت آگئی ہے ۔جمعیۃ پہلے بھی قانونی پیچیدگیوں ، سیاسی رکاوٹوں اور مالی مشکلات کے باوجود بے گناہ محروسین کے ساتھ کھڑی تھی اور آج بھی ناگفتہ با حالات کے باوجود ہمیشہ اور ہر حال میں اہل خیر کے تعاون سے ہر محاذ پر مسلمان متاثرین کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی رہے گی۔
س: مختلف مجرمانہ اور دہشت گردانہ کیس میں کتنے کیسوں کی پیروی کی جارہی ہے اور کتنی کامیابی ملی ہے ؟
ج: جھوٹے کیس میں پھنسائے جانے والے نوجوانوں کو بے قصور ہونے کے باوجود دنوں اور مہینوں نہیں بلکہ برسوں وقت پر کیس کی سماعت نہ ہونے کے سبب قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے ۔ جمعیۃ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ حکومت اور پولیس کی زیادتیوں کا شکار ایسے بے گناہ قیدیوں کو جیل سے ضمانت پر رہائی ہی نہیں بلکہ سینئر وکلاء کی کامیاب پیروی سے کیس سے بری کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ فی الحال جمعیۃ مجرمانہ اور دہشت گردانہ یا فسادات میں ملوث ہونے اور ملک دشمنی کے الزامات کے کیسوں میں ملوث ۱۵۸؍ کیسوں کی پیروی کررہی ہے ۔ ان میں سے ۶۵؍ نوجوانوں کو ضمانت پر رہائی دلانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ گزشتہ ۵؍ برس میں جمعیۃ نے سیکڑوں کیسوں کی پیروی کی اور ان میں ۱۲۸؍ محروسین کو رہائی دلانے میں بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔اس کامیابی کے لئے جتنا مولانا سید محمود اسعد مدنی (صدر جمعیۃ علماء ہند) کی سر پرستی اور ان کے وکلاء کی محنت کار فرماہے۔ اتنا ہی محروسین کی غیب سے مدد کرنے والے مخیّر حضرات کا تعاون بھی شامل حال ہے ۔
س: جمعیۃ دیگر کن معاملات کو اہمیت اور فوقیت دیتی ہے ؟
ج: جمعیۃ نے ہمیشہ دینی اورعصری تعلیم کے ساتھ ساتھ فلاحی ، رفاہی اور سماجی خدمات کو انجام دینے ، بیواؤں کو وظائف ، فساد اور زلزلہ متاثرین کی باز آباد کاری ، مالی اور دیگر 4ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے ساتھ ہی انسانیت کے پیغام کے ساتھ دیگر سماج سے وابستہ افراد کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ملکی و حکومتی سطح پر مسلمانو ںکے مسائل کو حل کرنے کو اولیت اور فوقیت دی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ اس کی تازہ مثال کھالاپوروشال گڑھ کے فسادمتاثرہ اور ضلع بلڈانہ کے دھاڑ فسادکے متاثرین کی مدد قابل ذکر ہیں ۔
س: دینی اور عصری تعلیمی میدان میں جمعیۃ کی خدمات کیا ہیں ؟
ج: جمعیۃ نے دینی تعلیم کو شہری ہی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر گاؤں گاؤں اور گھر گھر جاکر عام کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔ الگ الگ موقع پر عوام کو سیرت نبویﷺ سے واقف کرانے اور معاشرتی و سماجی برائیوں کے سد باب کے لئے تحریک اور مہم چلائی جاتی ہے ۔طلباء کو بنیادی دینی تعلیم سے واقف کرانے، مکاتب اسلامیہ کے نظام کو متحرک کرنے کے لئے اجلاس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ عصری تعلیم کی اہمیت کے پیش نظراس کے فروغ کیلئے جمعیۃ بھرپور جدوجہد کرتی رہی ہے ۔ اس ضمن میں میڈیکل ، انجینئرنگ ، فار میسی ،ایم بی اے ،بی ٹیک ،ایم ٹیک ،بی بی اے ، سی اے اور دیگر اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو اسکالر شپ اسکیم کے تحت خطیر رقم دی جاتی ہے۔
س: موجودہ حالات میں قوم کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
حالات چاہے کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہو مسلمانو ںکو دینی اور عصری تعلیم کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا از حد ضرور ی ہے۔ ہمیں ہوش مندی کے ساتھ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔