Updated: April 26, 2024, 6:33 PM IST
| New Delhi
وہاٹس ایپ نے دہلی ہائی کورٹ سے کہا کہ اگر اسے ۲۰۲۱ء کے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز کے تحت میسج یا کال کو محفوظ رکھنے (انکرپشن) کی پالیسی کو توڑنے کیلئے کہا گیا تو کمپنی ہندوستان سےلوٹ جائے گی۔ وہاٹس ایپ کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے کہا کہ یہ اصول صارفین کی پرائیوسی کے خلاف ہے اور اسے مشاورت کے بغیر متعارف کروایا گیا ہے۔
وہاٹس ایپ نے جمعرات کو دہلی ہائی کورٹ سے کہا کہ اگر اسے ۲۰۲۱ء کے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز کے تحت میسج یا کال کو محفوظ رکھنے کی پالیسی کو توڑنےکیلئے کہا گیا تو کمپنی ہندوستان سے لوٹ جائے گی۔ وہاٹس ایپ اور اس کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے دہلی ہائی کورٹ میں اپنی درخواست میں سوشل میڈیا کمپنیوں کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز کی ایک شق کو چیلنج کیا تھا جس کے ذریعے وہاٹس ایپ کیلئے پیغامات بھیجنے والے پہلےشخص کی شناخت کرنا ضروری تھا۔
ہائی کورٹ میں وکیل تیجس کاریا، جو وہاٹس ایپ کی نمائندگی کر رہے تھے، نےکہا کہ لوگ وہاٹس ایپ اس لئےاستعمال کرتے ہیں کیونکہ کمپنی نے انہیں پرائیوسی کی یقین دہانی کروائی ہے اور یہ ( اینڈٹو اینڈ انکریپٹیڈ)کال اور میسج کے دوران دو افراد کے درمیان رازداری کو یقینی بناتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فوجیوں نے متعدد لاشوں کے اعضاء چوری کئے تھے،متعدد متاثرین کو زندہ دفنایا گیا تھا
یہ شق صارفین کی پرائیوسی کے خلاف ہے اور اسے مشاورت کے بغیر متعارف کروایا گیا ہے۔اس اصول کیلئے وہاٹس ایپ کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ برسوں کے پیغامات کو سنبھال کر رکھے۔
یہ ایسا اصول ہے جو دنیا بھر میں کہیں عام نہیں۔ہمیں ایک مکمل چین تیار کرکے رکھنی ہو گی اور ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کونسا پیغام غیر محفوظ رکھنے کیلئے کہا جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ برسوں کیلئے کروڑوں پیغامات کو جمع کرنے کی ضرورت ہوگی۔انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ میں پیغامات کو غیر محفوظ کرنے جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔
بعد ازیں عدالت نے کہا کہ ایسا کوئی قانون دنیا بھرمیں کہیں ہے۔ کیا ان معاملات کودنیا بھر میں کہیں اٹھایا گیا ہے؟ آپ کو دنیا میں کہیں بھی معلومات شیئر کرنے کو نہیں کہا گیا؟ یہاں تک کہ جنوبی امریکہ میں بھی نہیں؟جس کے جواب میں کاریا نے کہا ’’نہیں ! یہاں تک کہ برازیل میں بھی نہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: کیرالا: ووٹنگ کیلئے خلیجی ممالک سے ہزاروں ہندوستانیوں کی آمد
قبل ازیں مرکزی حکومت نے عدالت سے کہا تھا کہ وہاٹس ایپ اور فیس بک صارفین کی معلومات کو کمرشیل مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور قانونی طور پر یہ دعویٰ کرنے کے حقدار نہیں کہ وہ صارفین کی پرائیوسی کی حفاظت کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے یہ بھی کہاتھا کہ متعدد ممالک کے ریگولیٹرز کے مطابق فیس بک کو اس کیلئے جوابدہ ہونا چاہئے۔ عدالت نے اس معاملے کی سماعت ۱۴؍ اگست تک ملتوی کی ہے۔