عمر خالدنے اب تک ضمانت نہ د ئیے جانے کو سخت نا انصافی قرار دیا، کہا کہ محض وہاٹس ایپ گروپ کا رُکن ہونا دہشت گردی نہیں ہے
EPAPER
Updated: February 21, 2025, 10:43 PM IST | New Delhi
عمر خالدنے اب تک ضمانت نہ د ئیے جانے کو سخت نا انصافی قرار دیا، کہا کہ محض وہاٹس ایپ گروپ کا رُکن ہونا دہشت گردی نہیں ہے
دہلی ہائی کورٹ میں ۲۰۲۰ءکے دہلی فسادات کیس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طلبہ لیڈر عمر خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی جس میں عمر خالد نے زوردار دلائل دیتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ سے پوچھا کہ آخر انہیں اب تک ضمانت کیوں نہیں دی گئی ہے جبکہ ان کے معاملے میں کیس پرسماعت تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ عمر خالد کو ستمبر ۲۰۲۰ءمیں گرفتار کیا گیا تھا ۔ وہ تقریباً ساڑھے ۴؍ سال سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلائل میں سوال اٹھایا کہ جب ان کے شریک ملزمین دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا کو ضمانت دی جا چکی ہے تو انہیں اب تک کیوں جیل میں رکھا گیا ہے؟
عمر خالد کے وکیل تریدیپ پائس نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ محض واٹس ایپ گروپ کا رکن ہونا یا احتجاج میں شرکت کرنا دہشت گردی کے مترادف نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نے واضح طور پر اس الزام کو مسترد کیا کہ ان کے موکل عمر خالد نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں تشدد کو ہوا دی تھی۔ وکیل نے دلیل دی کہ عمر خالد نے نہ تو گروپ میں کسی گفتگو میں حصہ لیا اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجا تھا۔اپنی دلیل میں پائس نے کہا کہ کسی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونا کسی کو مجرم نہیں بناتا۔ خالد کو زبردستی اس گروپ میں شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے اس میں کبھی حصہ بھی نہیں لیا۔ ان پر کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام بے بنیاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے احتجاج میں ان کی شرکت کو غلط طریقے سے دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ محض کسی احتجاج یا میٹنگ میں موجود ہونا دہشت گردی کے مترادف نہیں ہو سکتا۔
عمر خالد کے وکیل نے مزید کہا کہ دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا کو، جو اسی نوعیت کے الزامات کا سامنا کر رہے تھے، ضمانت دی جا چکی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ قانون کی برابری کے اصول کے تحت خالد کے ساتھ مختلف سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ پائس نے عدالت سے درخواست کی کہ عمر خالد کی طویل مدت تک قید اور مقدمے کی کارروائی میں تاخیر کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں فوری طور پر ضمانت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اتنے عرصے کے بعد بھی الزامات طے نہ ہونے اورمقدمے میں تاخیر خود ضمانت کی بنیاد بنتا ہے۔ عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد اس کیس کی مزید سماعت کیلئے ۴؍ مارچ کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔