• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’جب دیوانگنا کلیتا ، نتاشا نروال اورآصف اقبال کو ضمانت مل گئی ہے تو مجھے کیوں نہیں؟ ‘‘

Updated: February 21, 2025, 10:43 PM IST | New Delhi

عمر خالدنے اب تک ضمانت نہ د ئیے جانے کو سخت نا انصافی قرار دیا، کہا کہ محض وہاٹس ایپ گروپ کا رُکن ہونا دہشت گردی نہیں ہے

Umar Khalid
عمر خالد

 دہلی ہائی کورٹ میں ۲۰۲۰ءکے دہلی فسادات کیس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طلبہ لیڈر عمر  خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی جس میں عمر خالد نے زوردار دلائل دیتے ہوئے  دہلی ہائی کورٹ سے پوچھا کہ آخر انہیں اب تک ضمانت کیوں نہیں دی گئی ہے جبکہ ان کے معاملے میں کیس پرسماعت تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ عمر خالد کو ستمبر ۲۰۲۰ءمیں گرفتار کیا گیا تھا ۔ وہ تقریباً ساڑھے ۴؍ سال سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔  انہوں نے اپنے دلائل میں سوال اٹھایا کہ جب ان کے شریک ملزمین دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا کو ضمانت دی جا چکی ہے تو انہیں اب تک کیوں جیل میں رکھا گیا ہے؟  
 عمر خالد کے وکیل  تریدیپ پائس  نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ محض واٹس ایپ گروپ کا رکن ہونا یا احتجاج میں شرکت کرنا دہشت گردی کے مترادف نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نے واضح طور پر اس الزام کو مسترد کیا کہ  ان کے موکل عمر خالد نے شہریت ترمیمی قانون  کے خلاف مظاہروں میں تشدد کو ہوا دی تھی۔ وکیل نے دلیل دی کہ عمر خالد نے نہ تو گروپ میں کسی گفتگو میں حصہ لیا اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجا تھا۔اپنی دلیل میں پائس نے کہا کہ کسی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونا کسی کو مجرم نہیں بناتا۔ خالد کو زبردستی اس گروپ میں شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے اس میں کبھی حصہ بھی نہیں لیا۔ ان پر کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام بے بنیاد ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے احتجاج میں ان کی شرکت کو غلط طریقے سے دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ محض کسی احتجاج یا میٹنگ میں موجود ہونا دہشت گردی کے مترادف نہیں ہو سکتا۔   
  عمر خالد کے وکیل نے مزید کہا کہ دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا کو، جو اسی نوعیت کے الزامات کا سامنا کر رہے تھے، ضمانت دی جا چکی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ قانون کی برابری کے اصول کے تحت خالد کے ساتھ مختلف سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟   پائس نے عدالت سے درخواست کی کہ عمر خالد کی طویل مدت تک قید اور مقدمے کی کارروائی میں تاخیر کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں فوری طور پر ضمانت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اتنے عرصے کے بعد بھی  الزامات طے  نہ ہونے اورمقدمے  میں تاخیر خود ضمانت کی بنیاد بنتا ہے۔ عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد اس کیس کی مزید سماعت کیلئے  ۴؍ مارچ کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔

new delhi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK