پونے میں سی اے کی خودکشی ،لکھنؤ میں بینک افسر کی ناگہانی موت، جھانسی میں فائنانس کمپنی کے ملازم کی خودسوزی کے معاملات کے سبب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ’ورک لوڈ‘اور’ٹوکسِک ورک کلچر‘کے متعلق تشویش و اندیشے کا اظہار کیا جارہاہے
EPAPER
Updated: October 11, 2024, 5:47 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
پونے میں سی اے کی خودکشی ،لکھنؤ میں بینک افسر کی ناگہانی موت، جھانسی میں فائنانس کمپنی کے ملازم کی خودسوزی کے معاملات کے سبب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ’ورک لوڈ‘اور’ٹوکسِک ورک کلچر‘کے متعلق تشویش و اندیشے کا اظہار کیا جارہاہے
کام کے دباؤ کے باعث پونے میں اینا سیبسٹیئن نامی خاتون جو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھی، کی پچھلے دنوں موت ہوگئی۔ اس کے بعد لکھنؤ میں ایک نجی بینک کی اعلیٰ اہلکار صدف فاطمہ کی آفس اوقات میں حرکت قلب بند ہوجانے سے موت ہوگئی۔ جھانسی میں بجاج فائنانس سے وابستہ ایک ملازم نے خودسوزی کرلی۔ مذکورہ بالا ۳؍معاملات کے باعث کام کےبڑھتے دباؤ (ورک لوڈ) اور دفاتر کے’زہرآلود کام کے ماحول(ٹوکسِک ورک کلچر)‘ کے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بحث چھڑگئی ہے۔بیشتر صارفین نے ملازمین پر بڑھتے کام کے دباؤکے تئیں تشویش و اندیشے کا اظہار کیاہے۔
’آئی دیسی بندہ‘نامی ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ کیاکہ ’’ستمبر میں ۲؍خودکشی کے معاملات ہوئے، دونوں ہی پبلک بینک میں منیجر تھے، دونوں اٹل سیتو سے (سمندرمیں)کودے، دونوں کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ مہلوک کام کے دباؤ سےپریشان تھے۔‘‘ اس پر یوگی راج نے لکھا کہ ’’سرکار سورہی ہے، یونین بٹی ہوئی ہیں، یونین لیڈر اپنی ہی روٹیاں سینک رہے ہیں، اور عام بینکر بے چارہ کام کے بوجھ اور تناؤ میں خودکشی کررہا ہے، ہمیں مل کر ہی سرکار اور یونینوں کو جگانے کا کچھ فارمولا ڈھونڈنا پڑے گا ورنہ دیر ہوجائے گی۔‘‘
بجاج فائنانس کے ملازم کی خودکشی سے متعلق این ڈی ٹی وی کی شیئر کردہ خبر کے لنک کے ذیل میں سوربھ جین نے تبصرہ کیا کہ کام کے دباؤ کے باعث نجانے لوگ کیوں خودکشی کرتے ہیں؟ استعفیٰ کا متبادل ہمیشہ موجود ہوتا ہے، ملازمت تبدیل کرنے کی راہ ہوتی ہے۔ اب تو ایسا وقت ہے کہ کمپنیاں آپ کو زندگی بھر اپنے ہاں کام پر مجبور بھی نہیں کرسکتیں۔ مجھے لگتا ہے کہ کمپنیوں اور حکومت کو چاہئے کہ ایسے افراد کے لئے وہ ’مینٹل ویلنیس ہیلپ لائن‘ کو فروغ دیں۔‘‘
سنیل راوسکر نے لکھا کہ ’’ملازمین پر کام کا اتنا بوجھ ڈالا جارہا ہے کہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں، اس بے روزگاری کے دور میں نوجوانوں کا خوب فائدہ اٹھایا جارہا ہے، کیا کوئی سرکار ا سکے بارے میں سوچ رہی ہے؟‘‘
اس معاملے میں ہندوستان عالمی سطح پر کہاں کھڑا ہے؟
قابل ذکر ہے کہ کام کاج کے اوسط طویل ہفتے کے معاملے میں ہندوستان ۱۳؍ویں مقام پر آتا ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق ہندوستان کے ۵۱؍فیصد ملازمین ہفتے میں مجموعی طور پر ۴۹؍گھنٹے یا اس سے زائد کام کرتے ہیں۔ جب ایک طرف یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ملک میںملازمین کیلئے کام کاج کا ہفتہ طویل ہے تو ایسے میں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بیرون ممالک اس حوالےسے کیاماحول ہے۔
ان ممالک میں ملازمین کیلئے کام کا ہفتہ مختصر ہے
اس معاملے میں سب سے پہلا نام وانواتو کا آتا ہے۔بزنس اسٹینڈرڈنے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ دنیامیں سب سے مختصر اوسط کام کاج کے ہفتے پر وانواتو میں عمل کیا جاتا ہے۔ یہ جزیرائی ملک بحرالکاہل میںواقع ذیلی خطے میلانیشیا میں موجود ہے۔ جو آسٹریلیا کے شمال میں جزائر پر مشتمل ملک ہے۔
سب سے کم کام کاج والے ہفتے پر عمل کرنے والے ممالک
ملک کانام کام کے کل اوسط گھنٹے یہاں کتنے فیصد ملازمین
۴۹؍گھنٹے کام کرتے ہیں؟
(۱) وانواتو ۲۴ء۷ ۴؍فیصد
(۲) کیرباتی ۲۷ء۳ ۱۰؍فیصد
(۳) مائیکرونیشیا ۳۰ء۵ ۲؍فیصد
(۴) روانڈا ۳۰ء۴ ۱۲؍فیصد
(۵) صومالیہ ۳۱ء۵ ۱۰؍فیصد
(۶) نیدرلینڈس ۳۱ء۶ ۶؍فیصد
(۷) عراق ۳۱ء۷ ۵؍فیصد
(۸)ویلس اینڈ فوتونا ۳۱ء۸ ۶؍فیصد
(۹) ایتھوپیا ۳۱ء۹ ۱۵؍فیصد
(۱۰) کینیڈا ۳۲ء۱ ۹؍فیصد
سب سے زیادہ کام کاج والے ہفتے پر عمل کرنے والے ممالک
ملک کانام ہفتے بھر کل اوسط گھنٹے یہاں کتنے فیصد ملازمین
۴۹؍گھنٹے کام کرتے ہیں؟
(۱) بھوٹان ۵۴ء۴ ۶۱؍فیصد
(۲)یواے ای ۵۰ء۹ ۳۹؍فیصد
(۳) لیسوتھو ۵۰ء۴ ۳۶؍فیصد
(۴) کانگو ۴۸ء۶ ۴۵؍فیصد
(۵) قطر ۴۸ ۲۹؍فیصد
(۶) لائبریا ۴۷ء۷ ۲۷؍فیصد
(۷) ماریطانیہ ۴۷ء۶ ۴۶؍فیصد
(۸) لبنان ۴۷ء۶ ۳۸؍فیصد
(۹) منگولیا ۴۷ء۳ ۳۳؍فیصد
(۱۰) اردن ۴۷ ۳۴؍فیصد
(اعدادوشمار بحوالہ: ویجیزاینڈ ورکنگ ٹائم اسٹیٹسٹکس(سی او این ڈی) ڈیٹا بیس،آئی ایل او ایس ٹی اے ٹی )