معروف ماہرین قانون کا اظہار خیال ،انصاف کےحصول کوسستا اور تیز رفتار بنانے پر توجہ مبذول کرائی ۔ ۵؍ کروڑمقدمات زیر التوا ہیں
EPAPER
Updated: January 24, 2025, 12:12 PM IST | New Delhi
معروف ماہرین قانون کا اظہار خیال ،انصاف کےحصول کوسستا اور تیز رفتار بنانے پر توجہ مبذول کرائی ۔ ۵؍ کروڑمقدمات زیر التوا ہیں
’’عدالتی نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت‘‘ کے عنوان سے گزشتہ دنوں’ فورم فار فاسٹ جسٹس ‘ نامی مشہور غیرسرکاری تنظیم نے دہلی کے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں ایک اہم سمینار کا اہتمام کیا تھا ۔ اس سمینار میں جہاں عدالتی اصلاحات اور انصاف کے نظام میں موجود خامیوں کو اجاگر کیا گیا وہیںمطالبہ کیا گیا کہ حکومت اور عدالتیں جلد از جلد اور کم خرچ میں انصاف مہیا کروانے کا انتظام کریں ۔ یہ سرکاروں اور عدالتوں کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جانب اقدامات کریں تاکہ عام شہریوں کو برسوں تک انصاف کا منتظر نہ رہنا پڑے۔ سمینار کے مہمان خصوصی معروف فلم سازکپل کاکر تھے جن کی مشہور دستاویزی فلم ’ بلیک جسٹس ‘ گزشتہ دنوں ہی ریلیز ہوئی ہے۔ اس دستاویزی فلم میں ہندوستانی عدالتی نظام کی معدد خامیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
دنیا کا سست ترین عدالتی نظام
کپل کاکر نے اپنے خطاب میں بتایا کہ ’’ہندوستان کا عدالتی نظام غالباً دنیا کا سب سے سست نظام ہے۔ اس میں ہر چند کہ متعدد خوبیاں ہیں لیکن یہاں انصاف دینے کاسسٹم اتنا دھیما ہے کہ جب تک اصل انصاف ملتا ہے تب تک بہت تاخیر ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ باتیں ہم صرف فلموں میں ہی نہیں دیکھتے آئے ہیں بلکہ یہ حقیقت میں ہوتی ہیں جن پر فلمیں بنائی جاتی ہیں۔‘‘ کپل کاکر نے مزید کہا کہ ہمارے نظام انصاف کی سہل رفتاری کی وجہ سے ہی اس وقت ملک میںلاکھوں کیسیز زیر التوا ہیں۔ انہیں نمٹانے اور سبھی کو مکمل انصاف فراہم کرنے کے سلسلے میں اقدامات بہت ضروری ہیں۔
ذہن سازی ضروری ہے
غیرسرکاری تنظیم ’فورم فار فاسٹ جسٹس‘ کے روح رواں اورشہریوں کے حقوق کی بازیابی کیلئے اکثر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے اور مفاد عامہ کی درخواستیں داخل کرنے والےسماجی کارکن بھگوان جی رایانی نے سمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری تنظیم نے گزشتہ ۱۵؍ سال میں انصاف کے میدان میںبہت سے اہم اقدامات کئے ہیں ۔ ہم نے دبے کچلے، مظلوم اور پسماندہ طبقات کو انصاف دلانے کے لئے مختلف میمورنڈم جمع کروائے ، ججوں کے سمینار کروائے ، وکلاء اور دیگر کورٹ آفیسرس کی ذہن سازی بھی کی تاکہ شہریوں کو اور خاص طور پر ان لوگوں کو تیز رفتار طریقے سے انصاف مل سکے جو اس نظام اور اس میں ہونے والی تاخیرسے واقف نہیں ہیں یا برسوں تک اس کے شکار رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے باوجود ہمیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ انصاف میں اب بھی بہت تاخیر ہوتی ہے جبکہ فوری انصاف ملنے سے ملک کے شہریوں کا جمہوریت ، قانون و انتظام اور جمہوری اداروں میں یقین بڑھتا ہے۔ انصاف کا دور دورہ ہونے سے جمہوری قدریں مستحکم ہوتی ہیں لیکن ہمارے ارباب یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم نے نیائے یاترائیں بھی منعقد کی اور اپنے فورم کے مختلف اجلاس بھی کئے تاکہ قانونی خواندگی میں اضافہ ہو ،تیز رفتاری سے انصاف دینے کا ذہن بنے اور پورا عدالتی نظام اس سمت میں کام کرے۔
کتنے کیس زیر التواءہیں؟
بھگوان جی رایانی نے اپنے خطاب میںبتایا کہ اس وقت ملک کی ضلعی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ تک ۵؍ کروڑ ۱۸؍ لاکھ ۲۳؍ ہزار ۴؍ سو ۶۰؍ کیسیز زیر التواء ہیں۔ یہ غالباً پوری دنیا میں زیر التوا کیسیز کی سب سے بڑی تعداد ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس تعداد کو کم کرنے کے لئے بہت بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر فوری انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا تو یہ ’ٹک ٹک ‘ کرتا ہوا ٹائم بم ہے جو کبھی بھی پھٹ پڑے گا۔ ایسے میں ہماری جمہوریت اور ہمارے جمہوری ادارے سبھی خطرے میں آجائیں گے ۔ واضح رہے کہ بھگوان جی رایانی کی ایک اور تنظیم ’جن ہت منچ‘ کے ذریعہ اب تک انہوں نے مفاد عامہ کی ۱۲۰؍ پٹیشن ہائی کورٹ میں داخل کی ہیں۔ اگرچہ وہ وکیل نہیں ہیں لیکن مختلف موضوعات پر خود تحقیق کرتے ہیں اور قانون کی بہت اچھی معلومات رکھتے ہیں۔ وہ عدالت میں کئی معاملات پر خود بحث کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے چکر لگانے میںکافی وقت چلا جاتا ہے لیکن انصاف نہیں ملتا ایسے میں ہمیں بہت منظم انداز میں عدالتوں کی رفتار بڑھانی ہو گی۔
واضح رہے کہ اس پروگرام سے خطاب کرنے والوں میں سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء ایڈوکیٹ رویندر شرما اور ایڈوکیٹ ارون ماجھی بھی شامل تھے۔ ان دونوں صاحبان نے نظام انصاف میں سوشل ورک کی اہمیت پر زور دیا اور بتایا کہ بہت سے معاملات سوشل ورک کے ذریعے عدالتوں کے باہر ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات کا انبار نہیں لگے گا اورعدالتوں کو بھی انتہائی ضروری کیسیز نمٹانے میں آسانی ہو گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نظام انصاف کی اپنی کچھ مجبوریاں ہو سکتی ہیں لیکن اس کی رفتار بڑھانے کے جتنے بھی اقدامات کئے جاسکتے ہیں وہ کئے جانے چاہئیں۔ ان کے علاوہ ایڈوکیٹ ایل کے کھنہ ، ایڈوکیٹ میتھیوز اور دیگر نے خطاب میں مختلف قانونی نکات پر روشنی ڈالی۔