• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

گڑگاؤں میں راج ببر کی امیدواری سے کارکنان کے حوصلے بلند، کانگریس کا پرچم لہرانے کی اُمید

Updated: May 07, 2024, 9:19 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

۲۲؍ لاکھ رائےدہندگان والے اس حلقے میں کانگریس اورراج ببر کے حق میں جو تین باتیں بتائی جا رہی ہیں، وہ ۶؍ لاکھ مسلم، ۲؍ لاکھ پنجابی اور ۶؍ لاکھ یادو ووٹرس ہیں جن کی اکثریت ’انڈیا‘ اتحاد کی حامی ہے۔

Congress candidate Raj Babbar from Gurgaon. Photo: INN
گڑگاؤں سے کانگریس کے امیدوارراج ببر۔ تصویر : آئی این این

گڑگاؤں اب گروگرام ہوگیا ہے اور ہریانہ کے بجائے ’دہلی این سی آر‘  سے پہچاناجاتا ہے۔ شہر کے نام کی تبدیلی کے باوجود لوک سبھا حلقہ آج بھی گڑگاؤں ہی کہلاتا ہے۔اس حلقے کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ لوک سبھا میںاس کی نمائندگی امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کی ہے۔ مولانا آزاد نے ۱۹۵۲ء میں رام پور سے اور  ۱۹۵۷ء میں گڑگاؤں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ شاہ رخ خان کے والد میر تاج محمد خان اور سیف علی خان کے والد نواب منصور علی خان پٹودی بھی یہاں سے قسمت آزما چکے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔  
یہ پارلیمانی حلقہ ریواڑی، گڑگاؤں اور میوات  کے اضلاع پرمشتمل ہے جس میں کل ۹؍ اسمبلی حلقے ہیں۔ ہریانہ کا ’نوح‘ بھی اسی پارلیمانی حلقے کا ایک حصہ ہے جہاں گزشتہ سال فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی الیکشن کے ریکارڈ کے مطابق اس حلقے میں ۲۲؍ لاکھ سے زائد ووٹرہیں جن میں مسلم رائے دہندگان کی شرح تقریباً ۲۹؍ فیصد ہے۔

یہ بھی پڑھئے: نفرت انگیز ویڈیو پر کارروائی، نڈا کیخلاف ایف آئی آر

کانگریس نے انتخابی مساوات کا حساب کتاب کرنے اور کافی غور و خوض کرنے کے بعد گڑگاؤں لوک سبھا حلقے سے راج ببر کو اپنا امیدوار بنایا ہے جو بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمان راؤ اندرجیت سنگھ کو سخت ٹکر دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہاں پر تیسرے امیدوار کے طورپر دُشینت چوٹالا کی پارٹی ’جن نائیک جنتا پارٹی‘ کے امیدوار راہل یادو (فاضل پوریا) ہیں جو ہریانوی سنگر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ حیرت انگیز طورپر بی جے پی نے راؤ اندرجیت سنگھ کو ایک بار پھرٹکٹ دے دیا ہے، حالانکہ نوح فسادکے وقت جس طرح سے انہوں نے پارٹی لائن کے خلاف بیان بازی کی تھی، ایسالگا تھا کہ شاید ان کا پتہ کٹ ہونے والا ہے، لیکن بی جے پی ان کے تعلق سے اتنا بڑا قدم اُٹھانے کی ہمت نہیں جٹا پائی۔ راؤ اندرجیت سنگھ  ۲۰۰۹ء  کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے لیکن بعد میں  بی جے پی میں چلے گئے۔ بی جے پی کو  ڈر اس بات کا تھا کہ ٹکٹ کٹنے کے بعد کہیں وہ پھر کانگریس میں نہ چلے جائیں۔ 
  اس حلقے میںکانگریس اورراج ببر کے حق میں جو تین باتیں  بتائی جا رہی ہیں، وہ مسلم، پنجابی اور یادو ووٹرس ہیں۔۲۲؍ لاکھ رائے دہندگان والے اس حلقے میں ساڑھے ۶؍ لاکھ  سے زائد مسلم، ۶؍ لاکھ کے قریب یادو اور ۲؍ لاکھ سے زائد پنجابی ووٹر ہیں۔ اس بار ملک کاجو انتخابی ماحول ہے، اس میں کانگریس کو پوری امید ہے کہ خطے کے تمام مسلم ووٹ اس کے پاس ہی رہیں گے جبکہ ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے اس بات کی بھی امید کی جارہی ہے کہ اکھلیش اورتیجسوی یہاں آکر یادو ووٹرس کو راج ببر کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کریں گے۔ راج ببر کا تعلق چونکہ خود پنجاب سے ہے، اسلئے ان کا خیال ہے کہ پنجابی ووٹ انہی کی حمایت کریں گے۔  اس کے ساتھ ہی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ان کی اپنی ایک الگ شناخت ہے، جس کا انہیں فائدہ ملے گا۔
  راؤ اندرجیت سنگھ بھلے ہی یہاں پر لگاتار تین بار سے کامیاب ہوتے رہے ہوں لیکن  اس بار ہریانہ اور دہلی کے حالات بدلے ہوئے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں لوک سبھاا لیکشن کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں گڑگاؤں لوک سبھا حلقے کے تحت آنے والے ۹؍ اسمبلی حلقوں میں سے کانگریس اور بی جے پی کو ۴۔۴؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی تھی۔ یہاں کا سب سے بڑا موضوع ڈیولپمنٹ  اور انفراسٹرکچر کاہے لیکن بی جے پی اس پر بات کرنے کے بجائے ’مقامی اور باہری‘ کا موضوع چھیڑ رہی  ہے۔ راج ببر نے  گڑگاؤ ں کو عالمی سطح کا شہر بنانے کا وعدہ کیا ہے۔  ایسے میں راج ببر کو جس طرح سے عوامی حمایت مل رہی ہے،اس کی وجہ سے کانگریس کارکنان کے حوصلے کافی بلند ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK