’’ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر‘‘ ۲۰۲۵ء کا ایوارڈ ۹؍ سالہ فلسطینی بچے محمود اجور کی تصویر کو دیا گیا ہے جس کے بازو اسرائیل کی جارحانہ جنگ میں ضائع ہوچکے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 17, 2025, 10:10 PM IST | Doha
’’ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر‘‘ ۲۰۲۵ء کا ایوارڈ ۹؍ سالہ فلسطینی بچے محمود اجور کی تصویر کو دیا گیا ہے جس کے بازو اسرائیل کی جارحانہ جنگ میں ضائع ہوچکے ہیں۔
ایک نو سالہ فلسطینی لڑکے محمود اجور کی تصویر نے ۲۰۲۵ء کا ’’ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر‘‘ کا ایوارڈ اپنے نام کیا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کے جارحانہ حملوں کے دوران اس لڑکے کے دونوں بازو ضائع ہوگئے تھے۔ یہ تصویر ثمر ابو الوف نے نیویارک ٹائمز اخبار کیلئے کھینچی تھی۔ تصویر اپنے کیمرے میں قید کرنے کے بعد جب فوٹوگرافر ابو الوف نے بچے کی والدہ سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ ’’بیٹے نے جب اپنے بازو نہ دیکھے تو اس کے زبان سے ادا ہونا والا پہلا جملہ یہ تھا: ’ماں! مَیں اب آپ کو گلے کیسے لگاؤں گا؟‘‘ واضح رہے کہ گزشتہ سال مارچ میں علاج کیلئے محمود کو دوحہ، قطر منتقل کیا گیا تھا۔
The #WPPh2025 Photo of the Year is ‘Mahmoud Ajjour, Aged Nine’ by @samarabuelouf, for @nytimes. The jury was moved by this portrait of a Palestinian boy which speaks to the devastating long-term costs of war on civilians. Read more: https://t.co/KHmkUjt2Rj pic.twitter.com/QP3lqEBWaR
— World Press Photo (@WorldPressPhoto) April 17, 2025
ثمر کا تعلق بھی غزہ سے ہے۔ انہیں دسمبر ۲۰۲۳ء میں وہاں سے نکالا گیا تھا، اور اب وہ دوحہ میں مقیم بری طرح سے زخمی فلسطینیوں کی تصاویر کھینچ رہی ہیں۔ اس ضمن میں ورلڈ پریس فوٹو کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جمانہ الزین خوری نے کہا کہ ’’یہ ایک خاموش تصویر ہے مگر بآواز بلند بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ یہ ایک لڑکے کی کہانی اور ایک طویل جنگ کو بیان کرتی ہے جس کا اثر آنے والی کئی نسلوں پر پڑے گا۔‘‘ تصویر منتخب کرنے والے جج صاحبان نے تصویر کی ساخت اور اس میں نظر آنے والی روشنی کی تعریف کی، اور اسے محمود کے مستقبل کے ساتھ منسلک کیا۔ جج صاحبان نے بچے کے مستقبل کے متعلق سوالات بھی قائم کئے۔
جج نے کہا کہ یہ بچہ اب بیشتر کام اپنے پاؤں سے کرنا سیکھ رہا ہے مگر اسے اب بھی روزمرہ کے درجنوں کاموں کیلئے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ورلڈ پریس فوٹو کے منتظمین نے کہا کہ ’’محمود کا خواب بہت سادہ ہے: وہ اپنی زندگی دیگر بچوں کی طرح گزارنا چاہتا ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کی ورکس اینڈ ریلیف ایجنسی (یو این ڈبلیو آر اے) کے حالیہ تخمینے کے مطابق گزشتہ سال دنیا کے کسی بھی حصے کے مقابلے غزہ میں سب سے زیادہ ایسے بچے ہیں جو جنگ کے سبب معذور ہوچکے ہیں۔