• Sat, 15 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

آج لوگ ریڈیو سنتے بھلے نہ ہوں مگر یاد کے طور پر انہیں سنبھال کر رکھنا چاہتے ہیں

Updated: February 14, 2025, 2:04 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ممبئی کے چور بازار میں موجود ۸۰؍ سال پرانی ریڈیو کی ایک دکان جہاں لوگ نایاب ریڈیو خریدنے یا کرایے پر لے جانے کیلئے آتے ہیں ، ان میں مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔

Haji Ibrahim Record Villa Shop. Image: Revolution
حاجی ابراہیم ریکارڈ ولا کی دکان۔ تصویر : انقلاب

۱۳؍فروری کو پوری دنیا میں ’ریڈیوڈے‘ منایاگیا۔ لیکن سوشل میڈیا کے دور میں بھی ریڈیو کی کوئی اہمیت باقی ہے؟ اگر آپ ممبئی کے مشہور چور بازار علاقے میں جائیں تو اس کا جواب ’ہاں ‘ میں ملے گا جہاں ۸۰؍سالہ قدیم ’حاجی ابراہیم ریکارڈ والا‘ نامی کی دکان موجود ہے۔ یہاں ہر طرح کے نئے پرانے ریڈیو ملتے ہیں۔ یہاں پرانے ریڈیو فروخت بھی ہوتے ہیں اور کرایے پر بھی دیئے جاتے ہیں۔ دکان کے مالک غلام حسین ریکارڈ والا کہتے ہیں کہ لوگ بھلے ہی سوشل میڈیا میں مصروف نظر آتے ہوں لیکن ہمارے یہاں آج بھی ریڈیو، ٹرانسسٹر، گراموفون، ریکارڈ پلیئر، شٹروالے ٹیلی ویژن اور کالے رنگ والے پرانے ٹیلی فون کے پرستار آتے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ اب ریڈیو سننے والے کم ہوگئے ہیں لیکن بطور شوپیس گھروں، ہوٹلوں، فلم کی شوٹنگ اور ڈرامے وغیرہ میں سجانے کیلئے لوگ ریڈیو خرید کر یا کرایہ پر لے جاتے ہیں۔ 

 

  ۲؍ نایاب ریڈیو۔ تصویر : انقلاب
غلام حسین ریکارڈ والا نے بتایا کہ’’ تقریباً ۸۰؍سال قبل میرے والد حاجی ابراہیم حسین نے یہ دکان کھولی تھی۔ اس وقت سے آج تک ہماری دکان نایاب اور قدیم ریڈیو، ٹرانسسٹر، گراموفون، ریکارڈ پلیئر، شٹروالے ٹیلی ویژن اور کالے رنگ والے پرانے ٹیلی فون کیلئے مقبول ہے۔ ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کی فلموں میں ہماری دکان کےریڈیو، گراموفون اور ٹیلی ویژن شوٹنگ میں استعمال ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں مشہور کرکٹر اجے جڈیجا اور فلم اداکارہ شبانہ اعظمی بھی ریڈیو اور ٹیلی فون خریدنے یہاں آئے تھے۔ ‘‘
  ایک سوال کے جواب میں غلام حسین نے بتایا کہ ’’ہمارے پاس نایاب برانڈ مثلاً فلپس، زینیتھ، سانیو اور نیشنل کمپنیوں کے سیکڑوں چھوٹے بڑے سائز اور ڈیزائن کے ریڈیو اب بھی محفوظ ہیں ۔ ان میں بیشتر ریڈیو کام کر رہے ہیں توکچھ ریڈیو نےخراب ہونےکی وجہ سے بجنا بند کر دیا ہے، اسکے باوجود ہم نے انہیں سنبھال کر رکھاہے کیونکہ اس طرح کے ریڈیوشوپیس کے طور پر شوٹنگ وغیرہ میں اب بھی استعمال کئے جاتے ہیں ، جنہیں ہم یومیہ ایک ہزارروپے کرایہ پر مہیا کرتے ہیں۔ ‘‘
 انہوں نے بتایا کہ ’’ہماری دکان پرچند ایسے والدین بھی آتے ہیں، جو نایاب ریڈیو کرایہ پر لے جاکر بچوں کو دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں بچپن میں اس ریڈیو کیلئے ہم ترستے تھے۔ ہماری دکان سے فلمی دنیا کاقریبی رشتہ رہاہے۔ بیرونی ممالک سے بھی نایاب ریڈیو، گراموفون اور ٹیلی فون وغیرہ خریدنےکیلئے سیکڑوں صارف دورہ کرچکے ہیں۔ ‘‘ 
 نایاب ریڈیو جو خراب ہوگئے ہیں ان کی مرمت کیوں نہیں کروائی ؟ یہ سوال پوچھنے پر غلام حسین نے بتایاکہ ’’دراصل اب عام لوگ ریڈیو نہیں سنتے ۔ اس وجہ سے عام بازار میں ریڈیوکی خرید وفروخت کا سلسلہ نہ کے برا بر ہے۔ اسلئے ریڈیو بنانےکا کام سیکھنا لوگوں نے چھوڑ دیاہے، نیز نایاب قسم کے ریڈیو بنانےوالے اب دنیا میں نہیں رہے جسکی وجہ سے ان ریڈیوکابننا ممکن نہیں ، اسلئے ان ریڈیوکو صرف شوپیس کے طورپر محفوظ کر رکھاہے۔ ‘‘ غلام حسین کے مطابق ’’ جو نایاب ریڈیو، گراموفون، ٹرانسسٹر، ریکارڈ پلیئر، شٹروالے ٹیلی ویژن اور کالے رنگ والے پرانے ٹیلی فون ہیں انہیں ہم کسی بھی قیمت پر فروخت نہیں کرتے کیونکہ وہ نایاب ہیں۔ اگر انہیں ہم فروخت کردیں تو اس برانڈ کا دوسراریڈیو ہمیں نہیں ملے سکتاہے، البتہ انہیں کرایہ پر ضرور دیتےہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK