بے روزگاری کے بحران سے دوچار ریاست ہریانہ میںکانگریس اور بی جے پی دونوں ہی وعدے اور دعوے کررہے ہیں ، کسان تحریک کے حوالے سےحکومت کے رویے پر کسانوں کی برہمی برقرار ہے،خاتون پہلوانوںکے معاملے میںکانگریس نے ونیش پھوگاٹ کو میدان میں اتار کرماحول کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی اورہریانہ کے وز یر اعلیٰ نائب سنگھ سینی۔ تصویر : آئی این این
`بجلی، سڑک، پا نی کے بجائے اس بار ہریانہ اسمبلی انتخابات میں جوان، کسان اور پہلوانوں کا غلبہ ہے اور یہی امور انتخابات کی حالت اور سمت طے کرسکتے ہیں۔ بے روزگاری کے بحران سے دوچار ہریانہ میں فوج میں کنٹریکٹ بھرتی اسکیم اگنی پتھ نے جوانوں کو مرکز میں لا کھڑا کیا ہے اور کانگریس اس اسکیم کو بہانہ بنا کر بی جے پی کو مسلسل نشانہ بناتی رہی ہے کہ اس اسکیم کو جوانوں سے پنشن چھیننے کے لئے لایا گیا ہے۔ اس کےساتھ ہی بی جے پی نے ہریانہ کے اگنی ویروں کو پنشن کے ساتھ نوکریاں دینے کا وعدہ کرکے `ڈیمج کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہےکہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے ہریانہ میں اگنی ویروں کیلئےسرکاری ملازمتوں میں ۱۰۰؍فیصد کوٹے کا اعلان کیا ہے۔
بعد میں کانگریس نے بھی منشور میں اگنی ویروں کیلئے سرکاری نوکریوں کا وعدہ کیا۔ بے روزگاری کے معاملے پر دونوں پارٹیوں نے کئی وعدے کئے ہیں جن میں دو لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ بی جے پی اپنے ۱۰؍ سالہ دور حکومت میں بغیر `خرچی اور پرچی کے ملازمتیں فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے اور کانگریس پر ملازمتوں میں بدعنوانی کا الزام لگا رہی ہے، جب کہ کانگریس پیپر لیک کے واقعات پر بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس اسرائیل میں غیر ہنر مند/نیم ہنر مند کارکنوں کی بھرتی یا یوکرین-روس جنگ میں پھنس جانے یا ڈنکی روٹ سے بیرون ملک جانے کے واقعات کو بے روزگاری کے مسئلے سے جوڑ رہی ہے لیکن اگنی ویر بے روزگاری کے معاملے پر مرکزی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔
کسانوں پر توجہ کا مرکز دہلی کی سرحدوں پر۲۱-۲۰۲۰ء میں زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج سے ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے زرعی قوانین کو واپس لے لیالیکن کسانوں کا غصہ برقرار ہے جس کی وجوہات میں کسانوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عمل نہ کرنا، کم از کم امدادی قیمت کیلئے گارنٹی کا قانون نہ بنانا، کسانوں کے خلاف درج مقدمات واپس نہ لینا شامل ہیں۔
کسان تحریک کے دوسرے مرحلے کے دوران کسانوں کو دہلی جانے سے روکنے کیلئے ہریانہ حکومت کی طرف سے سرحدوں کو سیل کرنا اور طاقت کا استعمال بھی کسانوں کے غصے کی ایک وجہ ہے۔ خاص طور پر بی جے پی کے کئی لیڈروں کو ہریانہ کے دیہی علاقوں میں کسانوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ بی جے پی حکومت نے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر۲۴؍ فصلیں خریدکر، مرکز کی کسان سمان ندھی اسکیم اور فصل کی خرابی کا معاوضہ دے کر کسانوں کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف کانگریس نے کسانوں کی تحریک کے دوران مارے گئے۷۰۰؍ سے زیادہ کسانوں کی یاد میں سندھو یا ٹکری سرحد پر ایک یادگار بنانے کا وعدہ کیا ہے۔
جہاں تک `پہلوان کے معاملے کا تعلق ہے، یہ دہلی میں جنسی ہراسانی کی شکایت کے بعد خاتون پہلوانوں کے احتجاج کی وجہ سے ایک سنگین قومی مسئلہ بن کر سامنے آیا کیونکہ ہریانہ کو کھلاڑیوں کی ریاست سمجھا جاتا ہے۔ پہلوانوں کو احتجاج کے مقام سے ہٹانے اور ملزم برج بھوشن سنگھ کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہ کرنے سے (اس کا لوک سبھا الیکشن کا ٹکٹ کاٹ کر ان کے بیٹے کو دیا گیا تھا) بی جے پی اس معاملے میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ کانگریس نے جولانہ سے تحریک کے چہرے ونیش پھوگاٹ کو ٹکٹ دے کر اس معاملے کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیر کو بھی پرینکا گاندھی نے امبالہ میں کہا کہ جب دہلی میں پہلوان کئی دنوں سے احتجاج کر رہے تھے، وزیر اعظم نے ان کے پاس جانا تو دوریہ پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ کیا وہ ان کی مدد کر سکتے ہیں ۔ پہلوانوں کا مسئلہ براہ راست خواتین سے جڑا ہوا ہے جنہیں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کے درمیان نہ صرف معاشی محاذ پر اپنے کنبہ کو چلانے بلکہ اپنی حفاظت کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
خواتین کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں بڑی پارٹیوں نے ایل پی جی سلنڈر۵۰۰؍روپے میں دینے کے علاوہ کئی وعدے بھی کئے ہیں۔ مجموعی طور پر اس اسمبلی الیکشن میں جس میں بی جے پی تیسری بار حکومت بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور کانگریس۱۰؍ سال بعد واپسی کی کوشش کر رہی ہے، بہت سے مسائل ہیں لیکن جوانوں، کسانوں اور پہلوانوں کے مسائل ہی انتخابات کی سمت اور حالت طے کر سکتے ہیں۔