سی پی آئی کے رُکن راجیہ سبھا جان بریٹاس نے بجٹ سیشن میں صدرجمہوریہ کے خطاب پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مودی حکومت کے نعروں پرشدید تنقید کی ، معیشت ، تعلیم اور دیگر تمام موضوعات پر خیالات کا اظہار کیا
EPAPER
Updated: February 06, 2025, 1:06 PM IST | New Delhi
سی پی آئی کے رُکن راجیہ سبھا جان بریٹاس نے بجٹ سیشن میں صدرجمہوریہ کے خطاب پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مودی حکومت کے نعروں پرشدید تنقید کی ، معیشت ، تعلیم اور دیگر تمام موضوعات پر خیالات کا اظہار کیا
جس وقت وزیر مالیات’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘بجٹ پیش کررہی تھیں ،اس وقت ایک بے بس خاتون جس نے زائد از دو دہائی انصاف کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھائیں، آخری سانسیں لے رہی تھی۔ وہ ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘کا شکار تھی۔ آپ اس کا نام جانتے ہیں۔ وہ ذکیہ جعفری تھیں۔ وہ صرف اپنے لئے انصاف کی تگ ودو نہیں کررہی تھیں بلکہ ان تمام بے بس افراد کے لئے جدو جہد کررہی تھیں جنہیں ذبح کر دیا گیا تھا۔ ان کے شوہر جویہاں ایوان بالا کے ہمارے ساتھی تھے، احسان جعفری کے ساتھ اتنے رحم کا بھی مظاہرہ نہیں کیاگیا جتنا رحم مذبح میں ایک جانور کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اور یہ خوف کی نفسیات ہے جو اس ملک میں پھیلائی جارہی ہے۔ ملک میں اقلیتوں کی جو صورتحال ہے.... میں بتا سکتا ہوں... دیکھئے سنبھل میں کیا ہوا؟ کھدائی مسلسل جاری ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ اجمیر درگاہ جہاں اٹل بہاری واجپئی چادر بھیجا کرتے تھے اور جہاں خود مودی جی بھی چادر روانہ کرتے ہیں،اس اجمیر درگاہ پر بھی دعویٰ پیش کردیاگیا۔
ملک میں اقلیتوں کی صورتحال قابل رحم ہے، ہرسال عیسائی پادری اور مذہبی افراد وزیراعظم مودی کی مہمان نواز ی کرتے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ انہیں بہت پسند کرتے ہیںیا ان کی بہت عزت کرتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ ڈرتے ہیں۔ وہ یہ شدید خوف کی وجہ سے کرتے ہیں۔ ابھی گزشتہ سال یعنی ۲۰۲۴ء میں عیسائی سماج پر ۸۳۴؍ حملے ہوئے۔ ایک ریاست میں مقامی عدالت حیران تھی کہ آپ ان لوگوں کو جیل میں کیوں نہیں ڈال دیتے ، ۲؍ لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ آپ جانتے ہیں کیوں؟کیوں کہ انہوں نےاپنے گھر میں بائبل رکھنے کا ’’جرم ‘‘کیا تھا۔ ہے نا حیران کن؟ (حکمراں محاذ کی جانب سے چیخ پکار پرکہ کہاں ہوا ایسا جان بریٹاس نے جواب دیا کہ )بریلی میں، ذرا پڑھ لیا کیجئے۔ وزیرداخلہ نے ایک بیان دیا تھا، اس کے بعد ایک واقعہ بہت دور نہیں ،یہیں قریب میں غازی آباد میں پیش آیاتھا۔ ایک دلت نے اپنی برات میں گھوڑے پر چڑھنے کی جرأت کی تھی ، اسے یہ کہہ کر گھوڑے سے کھینچ کراتار دیاگیا کہ کوئی دلت گھوڑے پر کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ بین المذاہب شادی کرنےوالا ایک جوڑا یہاں علی گڑھ میں شادی کی تقریب کرنے کے لئے آیاتھا۔ انہیں وہاں سے بھاگ جانا پڑا۔ یہ وہ خوف ہے جو سماج میں پھیلا دیا گیاہے۔
صدر جمہوریہ نے وفاقیت کے تعلق سے بات کی، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کیرالااس ملک کا حصہ نہیں ہے۔ وائناڈ کے سانحہ کے تعلق سے مجھے اطمینان ہے کہ دونوں ایوانوں نے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا مگر بجٹ میں ایک پیسہ بھی نہیں دیاگیا۔ اسے پوری طرح نظر انداز کردیا گیا۔ اس پر اس حکومت کے ایک وزیر کی یہ بے باکی کہ وہ کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ تم پہلے پسماندہ ریاست بن جاؤ پھر ہم تمہارے بارے میں غور کریں گے۔ کیا کوئی وزیر اس طرح کی بات کر سکتا ہے۔
ایک وزیر جو کیرالا سے ہیں، کہتے ہیں کہ قبائلیوں کی نجات کیلئے ضروری ہے کہ ایک برہمن ان کے محکمہ کا وزیر بنایا جائے۔ یہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس حکومت ہے؟ ہمارے وزیر تعلیم دھیرمیندر پردھان موجود ہیں۔ ہم جو ریاستی یونیورسٹیاں اپنے خون پسینے سے بنا رہے ہیں، آپ ان پر بھی قبضہ کرلینا چاہتے ہیں ۔ میں آپ کے سامنے اعدادوشمار پیش کرتا ہوں۔ گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں جو نئی یونیورسٹیاں بنی ہیں ان میں سے ۷۸؍ فیصد یا تو ریاستوں نے قائم کی ہیں یا پھر نجی اداروں نے۔ اب دھرمیندر جی یوجی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) کے رہنما خطوط لے آئے ہیں۔ گورنر یعنی وائسرائے اب یہ فیصلہ کرے گا کہ اُن یونیورسٹیوں کا وائس چانسلر کون ہوگا؟مجھے بتائیں کہ ریاستوں کے پاس کیا رہ جائےگا؟ وہ یونیورسٹیاں جنہیں ریاستوں نے قائم کیا ہے،انہیں بھی یہ ہائی جیک کرلینا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوشش یہ ہورہی ہے کہ ہر طرح کی طاقت صرف مرکز کے پاس رہے اور اس کیلئے آپ کے گورنرریاستی حکومتوں کو تباہ کرنے کیلئے ’’ہِٹ مین‘‘ (آلہ کار) کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ اب ذرا سائنسی مزاج جو ہم فروغ دے رہے ہیں ،اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ آئی آئی ٹی کا ایک ڈائریکٹر کہتا ہے کہ وہ گائے کا پیشاب پیتا ہے۔جناب عالی ، ہمارا نظام تعلیم کس طرف جا رہا ہے؟ملک کہاں جارہاہے؟ کیا سائنسی مزاج ہمارے آئین کا حصہ نہیں ہے؟ ملک کا ایک ایک ادارہ خوشامد پسند بنتا جارہاہے۔ عدلیہ سے لے کر الیکشن کمیشن تک۔ میں الیکشن کمیشن کے تعلق سے کچھ نہیں کہوں گا کیوں کہ وہ ’’آزاد، خود مختار اور آئینی ادارہ ہے۔ ‘‘ اب عدلیہ کو دیکھیں، نفرت کی وجہ سے ہائی کورٹ کا ایک جج اتنی ہمت کرسکتاہے کہ وہ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف بیان دے۔ یہ حکومت ’’نوآبادیاتی ذہنیت‘‘ سے باہر آنے کی بات کرتی ہے۔ (تعزیرات ہند، ضابطہ فوجداری اور قوانین شواہد کو ہٹاکر بی این ایس لائے جانےکا حولہ دیتے ہوئے) کیا ان نئے قوانین سے عدلیہ کا میعار بہتر ہوگیا، ہم نے پارلیمنٹ کو ’’ہندوستانی روپ رنگ‘‘ دے دیا ہے تو کیاہمارا قانون سازی کا طریقہ کار بہتر ہوگیا؟نوٹ بندی کے بعد کیا ہندوستانی روپیہ کی قدر اوپر گئی؟کچھ نہیں ہوا۔ (حکمراں محاذ کو مخاطب کرتے ہوئے) ہاں میں خوش ہوں کہ آپ مسلسل کھدائی کر رہے ہیں،(مضحکہ خیز انداز میں) اس کھدائی کا ایک مثبت پہلو بھی ہے، روپیہ کو محفوظ رکھنے کیلئے کھودتے رہنا پڑےگا، (روپیہ اتنا نیچے جاچکاہےکہ) اگر آپ اسے کھودیں گے نہیں تو کہیں رکھ نہیں پائیں گے۔ جناب عالی، باقی ساری چیزیں تو غیر ملکی ہیں مگر ٹرمپ ’’مائی ڈیئر ٹرمپ‘‘ہے۔ ’مائی ڈیئر ٹرمپ‘ کی وجہ سے ۷؍ لاکھ ہندوستانیوں کو امریکہ سے ملک بدر کیا جائےگا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں افراتفری مچی ہوئی ہے، ہماری کیا حکمت عملی ہے؟