سائنسدانوں کی مختلف امور پر کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں انسانوں کو ۱۰؍ ایسے خطرات درپیش ہیں جن کیلئے فوری اقدامات ضروری ہیں۔تمام تصاویر:آئی این این/ یوٹیوب/ آئی اسٹاک
EPAPER
Updated: Feb 15, 2024, 9:03 PM IST | Afzal Usmani
سائنسدانوں کی مختلف امور پر کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں انسانوں کو ۱۰؍ ایسے خطرات درپیش ہیں جن کیلئے فوری اقدامات ضروری ہیں۔تمام تصاویر:آئی این این/ یوٹیوب/ آئی اسٹاک
خلائی مخلوق کا حملہ(Alien invasion): ایلین کا حملہ سائنس فکشن کہانیوں اور فلموں میں دکھایا جانا ایک عام رجحان ہے جس میں خلائی مخلوقات انسانی زندگی کو ختم کرکے اس کی جگہ لینے، اسے غلام بنانے، سیارے کے وسائل چوری کرنے، یا سیارے کو مکمل طور پر تباہ کرنے کیلئے زمین پر حملہ کرتی ہے۔ سائنسی ماہرین خلائی مخلوق کے زمین پر حقیقی حملے کے امکانات کو انتہائی غیر معمولی سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق زمین پر ایلین کا حملہ کسی بھی وقت جلد ہی ممکن نہیں ہے۔ اگرخلائی مخلوق( ایلین) حملہ کرتی ہیں تو وہ زمین پر موجود تمام مخلوقات کو آسانی سے تباہ کر سکتی ہیںکیونکہ تکنالوجی کے لحاظ سے وہ ہم سے کئی گنا بہتر ہیں۔
شہابی پتھروں کی بارش (Asteroid impact): ماضی میں شہابیہ کے زمین پر گرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے زمین اور انسانی جانوں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ زمین پر ایک شہابی پتھر کتنی تباہی برپا کرے گا، اس کا اندازہ اس کی جسامت سے لگایا جاتا ہے۔ فی الحال شہابی پتھروں کے برسنے کا خدشہ کم ہے مگر ماہرین کے مطابق اس کا امکان خلائی مخلوق کے حملے سے زیادہ ہے۔ کروڑوں سال قبل جب زمین پر ڈائناسور آباد تھے تب ایک بڑا شہابی پتھر زمین سے ٹکرایا تھا جس کی وجہ سے زمین پر تباہی مچ گئی تھی۔ ایک بڑا شہابی پتھر بہت ساری جدید ٹکنالوجی کو ختم کردے گا اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا موجب بنے گا۔
شہد کی مکھیوں کا مرنا (Bees all die): زمین پر شہد کی مکھیوں کی بقا انسانی زندگی کیلئے سب سے اہم خیال کی جاتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اگر تمام شہد کی مکھیاں مر جائیں تو انسان بھی جلد مر جائے گا۔اگر ایسا ہوا تو پورے ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ شہد کی مکھیوں کے مر جانے کی صورت میں ایسے جانور یا پرندے جن کی غذا شہد کی مکھیاں ہیں، وہ اپنے شکار سے محروم ہوجائیں گے اور یہ قدرتی نظام اور فوڈ ویب کو بھی متاثر کرے گا۔ شہد کی مکھیوں کی موت انسانی کھیتی باڑی کو بھی متاثر کردےگی۔بعض ماہرین کے نزدیک اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ان مکھیوں کے بغیر نسل انسانی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔
مصنوعی ذہانت کا قبضہ(Artificial intelligence takeover): گزشتہ کچھ برسوں سے مصنوعی ذہانت کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جہاں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا وہیں اس کے کئی نقصانات بھی ہیں۔ اس کی تیز رفتاری کو دیکھتے ہوئے اکثر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اے آئی کی تباہ کن صلاحیت تیزی سے خطرے کا باعث بنے گی۔ ۲۰۱۸ء کی ایک رپورٹ نےاے آئی سے پیدا ہونے والی عالمی تباہی کے درجنوں منظرناموں کی نشاندہی کی تھی۔ ایک ایسے مستقبل میں جہاں انسانی آبادی بڑے پیمانے پر روبوٹس پر انحصار کرتی ہے،وہاں انسانوں کی ملازمتوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس کےعلاوہ سائبر کرائم کی شرح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔
ماحولیاتی انحطاط (Environmental degradation): آب و ہوا کی تبدیلی کے علاوہ، ہماری زمین کو ماحولیاتی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے، جن میں جنگلات کی کٹائی، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور آلودگی شامل ہیں۔ کچھ بنیادی ماحولیاتی چیلنجز جو بڑی پریشانی کا باعث بن رہے ہیں، وہ فضائی آلودگی، آبی آلودگی، قدرتی ماحول کی آلودگی اور کوڑے کی آلودگی وغیرہ ہیں۔ ماحولیاتی انحطاط ان دس خطرات میں سے ایک ہے جنہیں اقوام متحدہ کے خطرات، چیلنجز اور تبدیلی کے اعلیٰ سطحی پینل نے باضابطہ طور پر خبردار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان خطرات پر جلد از جلد توجہ نہ دی گئی تو یہ ہماری اور آنے والی بنی نوع کیلئے سنگین مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔
کوانٹم کمپیوٹنگ (Quantum computing): کوانٹم کمپیوٹنگ، اصولی طور پر ایک طاقتورتکنالوجی ہے جو ابھی اپنے ابتدائی دور سے گزر رہی ہے۔اس سے بھی زیادہ سنگین خطرات لاحق ہے۔مثلاً کوانٹم سمولیشن نئی ادویات اور دیگر کیمیکلز کی تیزی سے ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔تاہم، غلط ہاتھوں میں کوانٹم کمپیوٹنگ کا استعمال وبائی امراض کے ایجنٹوں اور دیگر خطرناک مادوں کو بنانے کیلئے کیا جا سکتا ہے، جس سے انسانیت کو وجودی خطرہ لاحق ہے۔ ماہر کوانٹم سائنسداں بنجامن شیفر نے پچھلے سال ایک مقالے میں لکھا تھا کہ بدمعاش ہاتھوں میں ایسی طاقتوں کا آجانا مستقبل میں خطرات کے امکان کو تشویشناک حد تک بڑھا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا(Social media): سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے معاشرے پر نقصاندہ اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے تہذیب کو لاحق بہت سے خطرات کو روکنے یا کم کرنے کی کوششوں کو روکنے کیلئے نظریاتی بیو قوفی کو بڑھاوا دیا ہے۔ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال جھوٹ پھیلانے، عوام میں ہیرا پھیری کرنے اور حکومتوں کو ڈرانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے رائے عامہ اور حکومتوں کو جوڑ توڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ اکیلا سوشل میڈیا تہذیب کے زوال کا سبب نہیں بن سکتا، البتہ دیگر ممکنہ خطرات کے ساتھ مل کر اس کی تباہی کو تیز کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
عالمی وبا(Pandemic): حال ہی میں کورونا عالمی وبا نے دنیا بھر میں ایک ملین سے زیادہ امریکیوں اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔امید تھی کہ یہ مستقبل کی وبائی امراض سے بچاؤ کیلئے ایک سنجیدہ کوشش کا آغاز کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔صحت عامہ کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے کہتے ہیں کہ افراد کو خطرات سے تحفظ خود کرنا چاہئے۔ لیکن ان خطرات سے کس طرح نمٹا جائے اس کے متعلق ضروری معلومات فراہم نہیں کرتے ہیں۔ نتیجتاً، مستقبل کی وبائی بیماری کووڈ۔۱۹؍ جیسی متعدی وبائی بیماری پیدا ہوسکتی ہےجس سے اموات کی شرح میں حیران کن اضافہ ہوگا جو سماج اور معاشرے کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ایٹمی جنگ (Nuclear war): ایٹمی جنگ یا نیو کلیئر وار کا امکان دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تہذیب کے خاتمے کے فکشنل اکاؤنٹس کیلئے ایک مقبول موضوع رہا ہے۔ اگرچہ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے انہدام نے لوگوں کے خوف کو کچھ ختم کر دیا تھا لیکن اب دوبارہ ان خطرات کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے اور اس کی وجہ ہے یوکرین کے ساتھ تنازع میں روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے بھی خبردار کیا ہے کہ انسانیت کو ایٹمی تباہی کا اتنا ہی خطرہ ہے جتنا کہ سرد جنگ کے دوران تھا اور اگر روس نہیں تو شمالی کوریا، چین، ایران اور دیگر ممالک کو بھی یہی خطرہ لاحق ہے۔
موسمیاتی تبدیلی (Climate change): سائنسداں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرہ ارض کو تبدیل کر سکتا ہے۔ زیادہ اوسط درجہ حرارت، پگھلتی سمندری برف، شدید خشک سالی ،جنگلات میں آگ لگنے کی کثرت، طاقتور سمندری طوفان اور موسم سرما کے طوفان پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی افسانہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی تباہ کن ہوسکتی ہے۔ مزید برآں، موسمیاتی تبدیلی جنگوں کو جنم دے سکتی ہے اور متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کی اہم وجہ بن سکتی ہے۔