Inquilab Logo

فلسطین اسرائیل تنازع؛ تاریخ کے آئینے میں

Updated: Oct 14, 2023, 7:10 PM IST | Shahebaz Khan

اسرائیل فلسطین تنازع میں اب تک لاکھوں افراد بے گھر جبکہ ہزاروں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ کئی عشروں سے اسرائیل فلسطین تنازع تعطل کا شکار ہے۔ جانئے اس تنازع کی مختصر تاریخ۔ تمام تصاویر: پی ٹی آئی، آئی این این،یو کے گورنمنٹ، نیشنل لائبریری آف اسرائیل، اسرائیل گورنمنٹ پریس آفس

X فلسطین کی سرزمین ایک صدی سے کچھ عرصہ قبل سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ترکی ایک جمہوری ملک بن گیا اور فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا۔ ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کی طرف سے لیونل والٹر روتھشائلڈ کو لکھے گئے خط میں ، اسرائیل کیلئے راہ ہموار کرتے ہوئے، فلسطین میں ’’یہودیوں کیلئےقومی سرزمین‘‘ کیلئے حمایت کا اظہار کیا۔
1/13

فلسطین کی سرزمین ایک صدی سے کچھ عرصہ قبل سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ترکی ایک جمہوری ملک بن گیا اور فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا۔ ۱۹۱۷ء میں برطانیہ نے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کی طرف سے لیونل والٹر روتھشائلڈ کو لکھے گئے خط میں ، اسرائیل کیلئے راہ ہموار کرتے ہوئے، فلسطین میں ’’یہودیوں کیلئےقومی سرزمین‘‘ کیلئے حمایت کا اظہار کیا۔

X جب فلسطین پر برطانوی منشور شروع ہوا تو یہودیوں کی آبادی ۹؍ فیصد تھی۔ برطانوی الاؤنس کے تحت یورپی یہودیوں کی ہجرت کے ساتھ، ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۵ء کے درمیان یہ فیصد بڑھ کر ۲۷؍ ہوگیا۔ برطانوی ریکارڈ کے مطابق ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۶ء تک ۳؍ لاکھ۷۶؍ ہزار ۴۱۵؍ یہودیوں جن میں زیادہ تر کا تعلق یورپ سے تھا، انہیں فلسطین میں بھیجا گیا۔
2/13

جب فلسطین پر برطانوی منشور شروع ہوا تو یہودیوں کی آبادی ۹؍ فیصد تھی۔ برطانوی الاؤنس کے تحت یورپی یہودیوں کی ہجرت کے ساتھ، ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۵ء کے درمیان یہ فیصد بڑھ کر ۲۷؍ ہوگیا۔ برطانوی ریکارڈ کے مطابق ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۶ء تک ۳؍ لاکھ۷۶؍ ہزار ۴۱۵؍ یہودیوں جن میں زیادہ تر کا تعلق یورپ سے تھا، انہیں فلسطین میں بھیجا گیا۔

X ۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد پاس کرکے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، اور اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی بنیاد کے بعد اسرائیل اور پڑوسی عرب ممالک کے درمیان ایک بھرپور جنگ ہوئی جس میں مغربی ممالک کی مدد سے اسرائیل فتح یاب ہوا، اور اسرائیل کے حصے میں زیادہ زمین آئی۔ 
3/13

۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد پاس کرکے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، اور اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی بنیاد کے بعد اسرائیل اور پڑوسی عرب ممالک کے درمیان ایک بھرپور جنگ ہوئی جس میں مغربی ممالک کی مدد سے اسرائیل فتح یاب ہوا، اور اسرائیل کے حصے میں زیادہ زمین آئی۔ 

X دسمبر ۱۹۴۸ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد \۱۹۴؍منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں سوئز کا بحران اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے نہر سوئز اور جزیرہ نما سینائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے طور پر پیدا ہوا تھا۔
4/13

دسمبر ۱۹۴۸ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد \۱۹۴؍منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں سوئز کا بحران اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے نہر سوئز اور جزیرہ نما سینائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے طور پر پیدا ہوا تھا۔

X ۵؍ جون ۱۹۶۷ءکو اسرائیل اور مصر، اردن اور شام کے درمیان چھ روزہ جنگ چھڑ گئی جس میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے فلسطینی عرب علاقوں، مشرقی یروشلم، غزہ، اور جزیرہ نما سینائی کے ساتھ گولان کی پہاڑیوں کے شامی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ 
5/13

۵؍ جون ۱۹۶۷ءکو اسرائیل اور مصر، اردن اور شام کے درمیان چھ روزہ جنگ چھڑ گئی جس میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے فلسطینی عرب علاقوں، مشرقی یروشلم، غزہ، اور جزیرہ نما سینائی کے ساتھ گولان کی پہاڑیوں کے شامی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ 

X  اسرائیل نے۱۹۷۸ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے حصے کے طور پر جزیرہ نما سینائی مصر کو واپس کر دیا اور رضاکارانہ طور پر اسرائیلی بستیوں کو ۲۰۰۵ء میں غزہ میں ترک کر دیا۔پہلی فلسطینی انتفاضہ دسمبر ۱۹۸۷ءمیں غزہ پٹی میں ہوا۔ اس انتفاضہ میں اسرائیلی فورسیز کے ہاتھوں ۱۰۷۰؍ فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں ۲۳۷؍بچے بھی شامل تھے،اور تقریباً ایک لاکھ ۷۵؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔انتفاضہ نے عالمی برادری کو تنازع کا حل تلاش کرنے پر بھی آمادہ کیا۔
6/13

 اسرائیل نے۱۹۷۸ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے حصے کے طور پر جزیرہ نما سینائی مصر کو واپس کر دیا اور رضاکارانہ طور پر اسرائیلی بستیوں کو ۲۰۰۵ء میں غزہ میں ترک کر دیا۔پہلی فلسطینی انتفاضہ دسمبر ۱۹۸۷ءمیں غزہ پٹی میں ہوا۔ اس انتفاضہ میں اسرائیلی فورسیز کے ہاتھوں ۱۰۷۰؍ فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں ۲۳۷؍بچے بھی شامل تھے،اور تقریباً ایک لاکھ ۷۵؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔انتفاضہ نے عالمی برادری کو تنازع کا حل تلاش کرنے پر بھی آمادہ کیا۔

X انتفاضہ ۱۹۹۳ءمیں اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے اور فلسطینی اتھارٹی (PA) کی تشکیل کے ساتھ ختم ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے لیڈر یاسر عرفات نے دو ریاستی حل کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کیا اور معاہدوں پر دستخط کئے جس کے تحت اسرائیل کو مغربی کنارے کے ۶۰؍فیصد اور علاقے کے زیادہ تر زمینی اور آبی وسائل کا کنٹرول مل گیا۔
7/13

انتفاضہ ۱۹۹۳ءمیں اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے اور فلسطینی اتھارٹی (PA) کی تشکیل کے ساتھ ختم ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے لیڈر یاسر عرفات نے دو ریاستی حل کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کیا اور معاہدوں پر دستخط کئے جس کے تحت اسرائیل کو مغربی کنارے کے ۶۰؍فیصد اور علاقے کے زیادہ تر زمینی اور آبی وسائل کا کنٹرول مل گیا۔

X دوسرا انتفاضہ ۲۰۰۰ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان ہوا جو پہلے سے زیادہ پرتشدد تھا۔ امن مذاکرات ٹوٹ چکے تھے اور اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے سے ہوشیار تھے۔آئی ایم ای یو نے ڈیٹا کے مطابق اس میں اسرائیل کے ہاتھوں ۴؍ہزار ۸۷۸؍ فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جبکہ فلسطین کے ہاتھوں ایک ہزار ۶۳؍ اسرائیلی۔ 
8/13

دوسرا انتفاضہ ۲۰۰۰ء اور ۲۰۰۵ء کے درمیان ہوا جو پہلے سے زیادہ پرتشدد تھا۔ امن مذاکرات ٹوٹ چکے تھے اور اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے سے ہوشیار تھے۔آئی ایم ای یو نے ڈیٹا کے مطابق اس میں اسرائیل کے ہاتھوں ۴؍ہزار ۸۷۸؍ فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جبکہ فلسطین کے ہاتھوں ایک ہزار ۶۳؍ اسرائیلی۔ 

X ۲۰۰۵ءمیں، اسرائیل نے غزہ پٹی سے علاحدگی اختیار کر لی اور علاقے میں سرحد اور ایئر اسپیس پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ایک سال بعد، یعنی ۲۰۰۶ء میں فلسطینیوں نے پہلی بار عام انتخابات میں ووٹ ڈالے جس میں حماس نے اکثریت حاصل کر لی۔ تاہم، فتح اور حماس کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی، جو مہینوں تک جاری رہی، جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی مارے گئے۔ حماس نےالفتح کو غزہ پٹی سے بے دخل کر دیا، اور فلسطینی اتھاریٹی کی مرکزی جماعت الفتح نے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر دوبارہ کنٹرول شروع کر دیا۔
9/13

۲۰۰۵ءمیں، اسرائیل نے غزہ پٹی سے علاحدگی اختیار کر لی اور علاقے میں سرحد اور ایئر اسپیس پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ایک سال بعد، یعنی ۲۰۰۶ء میں فلسطینیوں نے پہلی بار عام انتخابات میں ووٹ ڈالے جس میں حماس نے اکثریت حاصل کر لی۔ تاہم، فتح اور حماس کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی، جو مہینوں تک جاری رہی، جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی مارے گئے۔ حماس نےالفتح کو غزہ پٹی سے بے دخل کر دیا، اور فلسطینی اتھاریٹی کی مرکزی جماعت الفتح نے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر دوبارہ کنٹرول شروع کر دیا۔

X جون ۲۰۰۷ءمیں اسرائیل نے حماس پردہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے غزہ پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی جس سے لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں لگ گئیں۔ ۲۰۰۸ء میں اسرائیل نے حماس کے خلاف غزہ میں ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ (بڑے پیمانے پر کی جانے والی فوجی کارروائی )کا آغاز کیا۔جواب میں حماس نے اسرائیل پر ہزاروں میزائل حملےکئے اور اسرائیل نے بھی جوابی کارروائی میں بڑے پیمانے پر حملے کئے۔
10/13

جون ۲۰۰۷ءمیں اسرائیل نے حماس پردہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے غزہ پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی جس سے لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں لگ گئیں۔ ۲۰۰۸ء میں اسرائیل نے حماس کے خلاف غزہ میں ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ (بڑے پیمانے پر کی جانے والی فوجی کارروائی )کا آغاز کیا۔جواب میں حماس نے اسرائیل پر ہزاروں میزائل حملےکئے اور اسرائیل نے بھی جوابی کارروائی میں بڑے پیمانے پر حملے کئے۔

X ۲۰۱۴ءمیں،۵۰؍ دنوں تک غزہ میں جاری رہنے والی اسرائیل اور حماس کی جنگ میں ، اسرائیل نے ۲۱۰۰؍سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا۔ ۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست (non member observer state) کا درجہ دیا۔۲۰۱۷ء میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کو مایوس کرنے کیلئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔ انہوں نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے منتقل کرنے کا حکم دیا۔
11/13

۲۰۱۴ءمیں،۵۰؍ دنوں تک غزہ میں جاری رہنے والی اسرائیل اور حماس کی جنگ میں ، اسرائیل نے ۲۱۰۰؍سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا۔ ۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست (non member observer state) کا درجہ دیا۔۲۰۱۷ء میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کو مایوس کرنے کیلئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔ انہوں نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے منتقل کرنے کا حکم دیا۔

X ۲۰۲۰ءمیں، تل ابیب نے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ تعلقات بحال کئے اور ابراہم معاہدے پر دستخط کئے جس سے اہم سفارتی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ۲۱؍مئی ۲۰۲۱ء کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ۱۱؍ روز تک خونریز جنگ ہوئی جس میں ۲۵۶؍فلسطینی اور ۱۳؍ اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
12/13

۲۰۲۰ءمیں، تل ابیب نے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ تعلقات بحال کئے اور ابراہم معاہدے پر دستخط کئے جس سے اہم سفارتی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ۲۱؍مئی ۲۰۲۱ء کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ۱۱؍ روز تک خونریز جنگ ہوئی جس میں ۲۵۶؍فلسطینی اور ۱۳؍ اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔

X ۲۰۲۲ء سے اسرائیل اور فلسطین میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو شروع ہوا جو اَب تک جاری ہے۔
13/13

۲۰۲۲ء سے اسرائیل اور فلسطین میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو شروع ہوا جو اَب تک جاری ہے۔

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK