• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اخترعلی: ٹینس کھلاڑی کے علاوہ ہندوستانی ڈیوس کپ ٹیم کے کپتان بھی تھے

Updated: July 05, 2024, 9:36 AM IST | Agency | New Delhi

ہندوستانی ٹینس کے تجربہ کار کھلاڑی اختر علی سنگلز اور ڈبلز دونوں فارمیٹس کے ماسٹر سمجھے جاتے تھے۔ وہ ٹینس کے بہترین کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ایک تجربہ کار اور کامیاب کوچ بھی رہے ہیں۔

Tennis player Akhtar Ali. Photo: INN
ٹینس کھلاڑی اختر علی۔ تصویر : آئی این این

ہندوستانی ٹینس کے تجربہ کار کھلاڑی اختر علی سنگلز اور ڈبلز دونوں فارمیٹس کے ماسٹر سمجھے جاتے تھے۔ وہ ٹینس کے بہترین کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ایک تجربہ کار اور کامیاب کوچ بھی رہے ہیں۔ لیجنڈ ٹینس اسٹار اور سابق کوچ اختر علی ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۴ء تک مسلسل ہندوستانی ڈیوس کپ ٹیم کے رکن اور ۲۰۰۸ء میں ہندوستانی ڈیوس کپ کے کپتان رہے۔ 
ٹینس کی دنیا میں اپنی شناخت بنانے والے تجربہ کار ٹینس کھلاڑی اخترعلی کی پیدائش ۵؍ جولائی ۱۹۳۹ء کو الہ آباد میں ہوئی۔ اختر نے ۱۹۵۵ء میں ٹینس کے شعبے میں اپنی منفرد شناخت بنائی جب وہ قومی جونیئر چمپئن بنے اور جونیئر ومبلڈن کے سیمی فائنل میں پہنچے۔ اختر، جن کی کوچنگ آسٹریلیا کے سابق ڈیوس کپ کوچ ہیری ہاپ مین نے کی، ومبلڈن اور فرنچ اوپن گرینڈ سلیم ٹورنامنٹس میں بھی کھیلے۔ وہ ایشین مکسڈ ڈبلز چیمپئن شپ کے فاتح تھے۔ انہوں نے اپناپہلا سنگلز ٹورنامنٹ ۱۹۵۶ء میں، ایسٹبورن میں روتھمینز انویٹیشنل میں کھیلا۔ اسی سال انگلینڈ کے دورے میں انہوں نے اپنے ہم وطن اروند چرنجیوا کے خلاف نیو مالڈن اوپن میں اپنا پہلا سنگلز ٹائٹل جیتا تھا۔ اخترنےاپنا آخری معروف سنگلز ٹائٹل ۱۹۶۴ء میں جےپور میں جیتا تھا۔ انہوں نے ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۴ء کے درمیان ۸؍ ڈیوس کپ مقابلوں میں پاکستان، ملائیشیا، ایران، میکسیکو، جاپان اور موناکو کے خلاف ہندوستان کی نمائندگی کی۔ وہ رامناتھن کرشنن، نریش کمار، پریم جیت لال اور جئے دیپ مکھرجی جیسے لیجنڈز کے ساتھ کھیلے۔ سنگلز اور ڈبلز دونوں میچوں میں اختر علی نے اپنی بہترین کارکردگی کے نمونے پیش کئے۔ وہ۵۰ء کی دہائی کے آخر اور۶۰ءکی دہائی کے وسط میں ہندوستانی ڈیوس کپ ٹیم کا ایک اہم رکن تھے۔ اختر سنگلزاور ڈبلز دونوں فارمیٹس کے ماسٹر تھے۔ رام ناتھ کرشنن، نریش کمار اور پریم جیت لال ان کے ہم عصر تھے۔ اختر علی نے اپنا آخری معروف ٹورنامنٹ ۱۹۸۳ءمیں سنگاپور گران کورٹ چمپئن شپ میں کھیلا، جب ان کی عمر۴۴؍سال تھی۔ انہوں نے۴؍بار ومبلڈن چمپئن شپ میں حصہ لیا، ان کی بہترین کارکردگی ۱۹۶۱ءمیں نظر آئی، جب وہ دوسرے راؤنڈ میں پہنچے۔ انہوں نے ۱۹۵۶ء اور ۱۹۵۸ء میں رولینڈ گیروس میں کھیلی گئی فرانسیسی چمپئن شپ میں بھی حصہ لیا۔ ان کی دیگر کیریئر کامیابیوں میں ۱۹۶۰ء میں سمنت مشرا کے خلاف اور ۱۹۶۲ء میں وی آر بالانو برامنیم کے خلاف سیلون چیمپئن شپ کی جیت شامل ہے۔ اخترعلی کو ٹینس میں ان کی زندگی بھر کی شراکت کیلئے ۲۰۰۰ء میں ارجن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہیں ۲۰۱۵ءمیں مغربی بنگال کے اعلیٰ ترین کھیلوں کے ایوارڈ سے نوازا۔ ہندوستانی ٹینس لیجنڈ اختر علی تشخیص شدہ پروسٹیٹ کینسر، پارکنسن کی بیماری اور دیگر صحت کے مسائل میں مبتلاتھے۔ اختر علی ۷؍فروری۲۰۲۱ءکو ۸۱؍سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی موت سے ٹینس کی دنیا میں سوگ کی لہرچھا گئی تھی۔ انہیں ایک پرجوش ایگزیکٹوکے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ سابق ہندستانی قومی ٹینس چمپئن ذیشان علی، نیلوفر علی اور زرین دیسائی کے والد تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK